Maktaba Wahhabi

598 - 728
اب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر ہوں ۔ میری خلافت کو دو سال ہوگئے ہیں اور میں نے بھی اس (جائیداد) کو اپنی تحویل میں رکھا ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس میں جو مصارف کیا کرتے تھے، ویسے ہی میں بھی کرتا رہا۔ الله جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرزِ عمل میں سچا، مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ۔ پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے کے لیے آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا۔ جناب عباس! آپ تو اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: آپ (اے علی!) اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کا دعویٰ پیش کرنا تھا کہ انھیں والد کی میراث ملنی چاہیے۔ میں نے تم دونوں سے عرض کر دی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما گئے کہ ’’ہم (رسولوں ) کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے۔‘‘ پھر مجھے مناسب لگا کہ میں ان (جائیدادوں ) کو تمھارے قبضے میں دے دوں تو میں نے تم دونوں سے کہا: دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ تمھارے سپرد کر دیتا ہوں ، لیکن اس عہد اور اس اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی حکومت کے شروع میں کرتا رہا۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ یہ ہم کو دے دو۔ میں نے اس شرط پر دے دی۔ (اے حاضرین عثمان اور ان کے ساتھی وغیرہ!) کہو میں نے یہ اس شرط پر ان کے حوالے کی یا نہیں ؟ انھوں نے کہا: جی ہاں ۔ پھر انھوں نے علی و عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میں تم کو الله کی قسم دیتا ہوں ، میں نے اس شرط پر یہ آپ کے حوالے کی ہیں یا نہیں ؟ انھوں نے کہا: ہاں ۔ (عمر رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو۔ قسم الله کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں ۔ میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ۔ ہاں ! یہ اور بات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہوسکتا تو پھر وہ میرے سپرد کردو، میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا] فتح الباری (: ۱۲/ ۱۴۴ مطبوعہ انصاری) پر ہے: ’’وکانت ھذہ الصدقۃ بید علي منعھا عباسا فغلبہ علیھا، ثم کانت بید الحسن، ثم بید الحسین، ثم بید علي بن الحسین والحسن بن الحسن، ثم بید زید بن الحسن، وھي صدقۃ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم حقا، وقال معمر: ثم کانت بید عبد اللّٰه بن الحسن حتی ولي ھؤلاء یعني بني العباس فقبضوھا‘‘ انتھی، و اللّٰه تعالیٰ أعلم [یہ صدقہ (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی وقف شدہ جائیداد) علی رضی اللہ عنہ کے زیر تولیت تھا، انھوں نے عباس رضی اللہ عنہ سے اسے روکا اور وہ تنہا اس کے متولی رہے۔ پھر حسن رضی اللہ عنہ ، پھر حسین رضی اللہ عنہ ، پھر علی بن حسین، پھر حسن بن حسن، پھر زید بن حسن یکے بعد دیگرے اس کے متولی رہے۔ یہ جائیداد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برحق
Flag Counter