Maktaba Wahhabi

610 - 728
مارواڑیوں کے یہاں سے لاتے ہیں اور کسی قدر نفع رکھ کر خردہ فروشی کے طور پر بیچتے ہیں ۔ پس خریدار کی فرمایش پر مارواڑیوں کے یہاں سے کپڑا لا کر اور اپنا نفع رکھ کر بیچنا درست ہے یا نہیں ؟ میرے خیال میں صحابی مذکور کے جواب میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: (( لا تبع ما لیس عندک )) ان کا یہ مطلب ہے کہ تم نے جو صورت بتائی ہے، وہ میری بیع میں داخل نہیں ہے، اس لیے کہ وہ چیز تمھارے پاس ہے، اگرچہ تم اس کو دوسرے کی دکان سے لاتے ہو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ تم اس چیز کو نہ بیچو، جو تمھارے پاس نہیں ہے، جیسے عبدآبق یا مال مسروق۔ یہ مطلب کیسا ہے؟ جواب: (( لا تبع ما لیس عندک )) قابلِ احتجاج معلوم ہوتی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ نے اس کی تصحیح بھی کر دی ہے۔ (دیکھو: نیل: ۵/ ۱۵) اس حدیث میں جو (( ما لیس عندک )) ہے، اس کے معنی نیل (۵/ ۱۵) میں یہ لکھے ہیں : ’’أي ما لیس في ملکک وقدرتک، والظاھر أنہ یصدق علی العبد المغصوب الذي لا یقدر علی انتزاعہ من ھو في یدہ، وعلی الآبق الذي لا یعرف مکانہ، والطیر المنفلت الذي لا یعتاد رجوعہ، ویدل علی ذلک معنی ’’عند‘‘ لغۃ، قال الرضي: إنھا تستعمل في الحاضر القریب، وما ھو في حوزتک وإن کان بعیدا‘‘ انتھی [یعنی جو چیز تیری ملکیت اور قدرت میں نہیں ہے۔ ظاہراً یہ حدیث اس غصب شدہ غلام پر بھی صادق آتی ہے جس کو غصب کرنے والے کے ہاتھ سے لینا ممکن نہ ہو اور اس مفرور غلام پر جس کی جائے قرار کا علم ہی نہ ہو اور ایسا چُھوٹا ہوا پرندہ جو عادتاً واپس نہیں آتا، جیسا کہ ’’عند‘‘ کا لغوی معنی بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ رضی نے کہا ہے کہ یہ حاضر قریب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نیز اس چیز کے لیے جو تمھاری سلطنت میں ہو چاہے وہ دور ہی ہو] ’’فیخرج عن ھذا ما کان غائبا خارجا عن الملک أو داخلا فیہ خارجا عن الحوزۃ، وظاھرہ أنہ یقال لما کان حاضرا وإن کان خارجا عن الملک فمعنی قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لا تبع ما لیس عندک )) أي ما لیس حاضرا عندک، ولا غائبا في ملکک، وتحت حوزتک، قال البغوي: النھي في ھذا الحدیث عند بیوع الأعیان التي لا یملکھا أما بیع شییٔ موصوف في ذمتہ فیجوز فیہ السلم بشروطہ۔۔۔ إلی قولہ: وظاھر النھي تحریم ما لم یکن في ملک الإنسان، ولا داخلا تحت مقدرتہ، واستثني من ذلک السلم، فتکون أدلۃ جوازہ مخصصۃ لھذا العموم، وکذلک إذا کان المبیع في ذمۃ المشتري إذ ھو کالحاضر المقبوض‘‘ انتھی [پس اس سے وہ چیز خارج ہے جو غائب ہو اور ملکیت سے باہر ہو یا ملکیت میں داخل ہو۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ (عند) اس چیز پر بولا جاتا ہے جو حاضر ہو، اگرچہ وہ ملکیت سے خارج ہو۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’جو چیز تیرے پاس نہیں ، وہ فروخت نہ کر‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز فروخت نہ
Flag Counter