Maktaba Wahhabi

613 - 728
جواب: 1۔ایسے ناجائز میلوں میں سوائے وعظ و نصیحت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے کے اور کسی غرض سے جانا درست نہیں ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ * وَ مَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّ لٰکِنْ ذِکْرٰی لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ﴾ [سورۂ أنعام، رکوع: ۸] یعنی اور جب تو اُن لوگوں کو دیکھے، جو ہماری آیتوں میں خوض کرتے ہیں تو تُو ان سے منہ پھیر لے، یعنی ان کے ساتھ نہ بیٹھ، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں خوض کریں اور اگر شیطان تجھ کو (ان سے منہ پھیرنا) بھلا دے تو یاد آجانے کے بعد ان کے ساتھ نہ بیٹھ اور جو لوگ کہ ہماری آیتوں میں خوض کرنے والوں ظالموں کے ساتھ بیٹھنے سے پرہیز کرتے ہیں ، ان پر ان ظالموں کے محاسبہ میں سے کچھ نہیں ہے، لیکن ان پر ان ظالموں کو نصیحت کر دینا ہے تاکہ وہ بچیں ۔ ﴿ وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِھَافَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ﴾ [سورۂ نساء، رکوع: ۲۰] یعنی الله تعالیٰ تم پر اس کتاب میں اتار چکا ہے کہ جب تم سنو الله کی آیتوں کو کہ ان کا انکار کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کیا جاتا ہے تو اُن (انکار کرنے والے اور ٹھٹھا کرنے والے) کے ساتھ نہ بیٹھ، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں خوض کرنے لگیں ، یقینا تم انھیں کے مثل ہو، جب تم ان کے ساتھ بیٹھے رہ گئے۔ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: (( من کثر سواد قوم فھو منھم )) [1] (رواہ أبو یعلی الموصلي في مسندہ، و رواہ علي بن معبد في کتاب الطاعۃ والمعصیۃ، نقلہ الزیلعي في نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ: ۲/ ۳۴۳) یعنی جو کسی قوم کی جماعت کو بڑھائے، وہ انھیں میں سے ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ یہ کاٹنا پیسہ کا درست ہے، جبکہ سوداگروں میں اس کا دستور ہے اور بائع پھر اس کو جانتا ہے اور اس پر راضی ہے، کیونکہ ایسے امور میں عرف و دستور پر عمل کرنا شرعاً درست ہے۔ (( المسلمون علیٰ شروطھم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما )) [2] (بلوغ المرام، باب الصلح، مطبوعہ فاروقي دہلي، ص: ۵۷) [مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہوتے ہیں ، اس شرط کے سوا جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال کر دے]
Flag Counter