Maktaba Wahhabi

684 - 728
کہ ان میں سے جو جتنا ہی خدائے پاک سے ڈرے گا، اتنا ہی خدائے پاک کے نزدیک وہ عزت پائے گا۔ (دیکھو قرآن مجید، سورت حجرات، رکوع: ۲، پارہ: ۲۶) [1] جو لوگ قومِ بادیہ کو مسلمان کرنے والوں اور ان کے ساتھ کھانے پینے والوں کو اس وجہ سے ستاتے اور ایذا پہنچاتے ہیں اور ان کو دینِ اسلام میں عیب لگانے والا اور اسلام کو نقصان پہنچانے والا کہتے ہیں ، قانونِ اسلام کے سراسر خلاف کرتے ہیں اور دائرہ اسلام کو، جو نہایت وسیع ہے، تنگ بنانا چاہتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ بادیہ قوم کو مسلمان کرنے والوں نے تو ان کے مسلمان ہونے کے بعد ان کا کھانا پانی کھایا پیا ہے، جبکہ حنفی مذہب میں تو چمار، ڈوم، مُسہر وغیرہ جو مردار اور حرام خور قومیں ہیں ، ان کے ہاتھ کا کھانا پینا عین ان کے کفر کی حالت میں جائز ہے اور علمائے حنفیہ نے اس کا فتویٰ دیا ہے، جیسا کہ مجموعہ فتاویٰ (جلد اول، صفحہ: ۱۸۰، مطبوعہ شوکۃ الاسلام) میں مولوی عبدالحی لکھنوی مرحوم نے لکھا ہے، چنانچہ اس کی عبارت بعینہٖ ناظرین کے واسطے پیش کی جاتی ہے: ’’کیا فرماتے ہیں علمائے شریعت محمدیہ اس صورت میں کہ قوم مُسہر یا ڈوم یا چمار یا دوساد جو ہندو کافر مردار خوار ہوتی ہیں اور اکثر چیزیں حرام مثل چوہا اور ملا اور ضب اور گوہ اور کیکڑا وغیرہ کو کھایا کرتے ہیں ، ان کے یہاں کی چیزیں از قسم حلال پکی ہوئی کھانا یا ان کے ہاتھ کا پانی کنویں یا دریا سے نکالا ہوا پینا کہ جس میں کوئی شبہہ تلویث اشیاے حرام یا نجاست وغیرہا کا نہ ہو، شرعاً ممنوع ہے یا جائز اور ان کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی روٹی مسلمانوں کو کھانا روا ہوگا یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔ ’’ھو المصوب: جب تک کوئی نجاست ظاہری یقینا اعضائے ظاہرہ کافر پر نہ ہو، اس کے ہاتھ سے کھانا پکوانا یا پانی نکلوانا، یہ سب درست ہے، بوجہ اس کے کہ نجاست کافر کی صرف اعتقادی ہے، نہ ظاہری، جیسا کہ بحر رائق میں ہے: ’’لما أنزل النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بعض المشرکین في المسجد، وأمکن من المبیت فیہ، علی ما
Flag Counter