Maktaba Wahhabi

26 - 234
’’قوت‘‘ ہی ’’قوت‘‘ ہوتی ہے، مستعار لی ہوئی ’’قوت‘‘ قوت نہیں ہوا کرتی۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے ہاتھ میں کلاشنکوف رکھتا ہے تو بہت سے لوگ اس سے اُس وقت تک خوف کھاتے رہیں گے جب تک اُس کے ہاتھ میں کلاشنکوف کے اندر گولی موجود ہے۔ لیکن جونہی اُس کی کلاشنکوف کی گولیاں ختم ہوئیں، اُس کی ساری کی ساری ’’قوت‘‘ ختم ہو گئی۔ بس یہی نقطہ اللہ رب العزت نے کچھ یوں سمجھایا ہے: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰه وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمُ اللّٰه یَعْلَمُھُمْ(الانفال:60( اور جہاں تک ہو سکے قوت(ونشانہ بازی)سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے اُن کے(مقابلے کے) لئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔ یعنی جتنی بھی زیادہ سے زیادہ تم اپنی قوت و طاقت تیار کر سکتے ہو وہ ضرور کرو۔ کیونکہ مستعار لی ہوئی قوت ’’قوت‘‘ نہیں ہوا کرتی۔ اگر ’’اہل حق‘‘ کا ہر شخص دوپہر کا کھانا نہ کھائے اور یہی پیسہ ’’قوت‘‘ کے حصول اور تیاری میں صرف کر دے تو اللہ رحمن و رحیم چند ہی دنوں میں انہیں اس قابل بنا دے گا کہ یہ دنیا میں اسلام نافذ کر سکیں۔ کیا آج اہل حق اس کام کے لئے تیار ہیں؟ اگر تیار ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ اللہ پر بھروسہ کریں۔ کیونکہ جو شخص اور قوم اللہ پر بھروسہ کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اُسے بہت پسند کرتا ہے۔ اور اُس کی ہر حاجت پوری فرما دیتا ہے۔ اب جب اپنی قوت بنا لی جائے تو اُسے اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے استعمال کرنا ہی دراصل ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ اور جس قوم کی اپنی بنائی ہوئی ’’قوت‘‘ موجود نہیں ہوتی تو ازروئے قرآن وہ قوم ذلت اور معاشی تنگدستی میں گھر جایا کرتی ہے۔ اور اپنی شناخت بھی کھو دیتی ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم اب ساتویں چیز جو کہ اَمارتِ اسلامیہ قائم ہونے کے بعد سب سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے وہ دولت کی
Flag Counter