Maktaba Wahhabi

43 - 234
مسلما نو! جہا ں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور فرماتا ہے: ۔ لَایُکَلِّفُ اللّٰه نَفْسًا اِ لَّا وُسْعَھَا(بقرہ:286) اللہ کسی پر بو جھ نہیں ڈالتا مگر اسی قدر جس کی اس کو طاقت ہو۔ اور جہاد کا حکم دیتے ہوئے فر ما تا ہے : ۔ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه ط لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤمِنِیْنَ(النساء :84) تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کی راہ میں دشمنوںسے لڑیں ، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اپنی ذات کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں اور ہاں مسلمانوں کو بھی ابھارو۔ اور فرماتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَ نْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ مسلمانو! تم اپنی خبر رکھو جب تم راہِ راست پر ہو تو کوئی بھی گمراہ ہوا کرے تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔(مائدہ:105)۔ پس جس نے اپنی مقدور بھر امکانی کوشش کی اور اپنا فرض ادا کیا تو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس نے ہدایت کی راہ پالی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ہے : اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِاَمْرٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ(اخرجاہ فی الصحیحین) جب میں تم کو کسی کام کا حکم دوں تو تم اپنی طاقت کے مطابق کر گزرو۔(بخاری و مسلم)۔ لیکن اگر وہ﴿حاکم و ذمہ دار﴾ ایسا کرنے سے اس لیے قاصر ہے کہ وہ اپنے آپ کو عا جز﴿بزدل﴾ پاتا ہے یا کسی غیر شرعی ضرورت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے، تو وہ یقینا خیانت کرتا ہے۔ اور اُسے خیانت کی سزا دی جائے گی۔ اور اس لیے اس کا فرض ہے کہ وہ اصلح﴿اہل اور اچھے منتظم﴾ کو پہچانے اور ہر منصب اور ہر عہدہ کے لیے اصلح﴿اہل اور اچھے منتظم﴾ تجویز کر ے کیونکہ ولایت امر﴿یعنی حاکمِ وقت سے بیورو کریسی اور چھوٹے نوکروں تک کی ذمہ داری﴾ کے دو رکن ہیں ’’ایک قوت دوسری امانت‘‘ جیسا کہ قر آن مجید کے اندر ہے : ۔
Flag Counter