Maktaba Wahhabi

48 - 234
کے مقابلہ میں اسے ترجیح دے، اگرچہ وہ امین ہو۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا: دو آدمی ہیں، دونو ںکے دونوںحرب و جہاد کے امیر و سردار ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک فاجر مگر قوی ہے، دوسرا صالح اور نیک ہے مگر ضعیف و کمزور ہے، تو دونوں میں سے کس کے ساتھ رہ کر جہاد کرنا چاہئے؟ آپ نے فرما یا: فاجر قوی کی قوت مسلمانوں کے لیے ہے اور اس کا فسق و فجور اس کی اپنی جان کے لیے ہے۔ اور صالح ونیک ضعیف و کمزور ہے تو اس کی صلاح و نیک بختی اس کی جان کے لیے ہے۔ اور مسلما نوں کے ضعف کاموجب ہے۔ تو جہاد قوی و فاجر کیساتھ رہ کر کرنا چاہئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰه یُؤیِّدُ ھٰذَا الدِّیْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ بیشک اللہ تعا لیٰ فاسق و فاجر آدمی سے بھی اس دین کی مدد کرا دیتا ہے۔ اور ایک روایت بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ(فاجر آدمی) کی جگہ بِاَقْوَامٍ لَاخَلَاقَ لَھُمْ کے الفاظ استعمال کئے(یعنی ایسی قوم اور ایسے لوگوں سے مدد کر ادیتا ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں)۔ پس اس وقت جبکہ امیر و سالار قوی القلب(یعنی شیر دل)، شجاع و بہادر اور دلیر میسر نہ آئے اور اس جگہ کو پُر کرنے کے لیے کوئی ایسا آدمی نہ مل سکے جو امیر حرب﴿وزیر جنگ﴾ اور سالارِ جنگ مقرر کیا جائے تو اس وقت اصلح فی الدین﴿متقی و پرہیزگار﴾ کو مقرر کر دے اور اسی بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امارت حرب دی اور سپہ سالارِ اسلام بنا یا تھا۔ جب سے وہ اسلام لائے تھے اس وقت سے یہ خدمت انہی کے سپرد رہی اور ان کی شان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کر تے تھے: سَیْفٌ سَلَّہُ اللّٰه عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ خالد ایسی تلوار ہیں جو اللہ نے مشر کوں کی ہلا کت کے لیے کھلی رکھی ہے۔ باوجود اس کے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سے کبھی کبھی ایسی حرکتیں ہوا کرتی تھیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسے بُرا سمجھتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف ہا تھ اٹھا کر کہا تھا: اَللّٰھُمَّ اَبْرَاُ اِلَیْکَ مِمَّا فَعَلَ خَالِدٌ اے ااَللّٰه خالد نے جو کچھ کیا ہے، اس سے میں بری(لا تعلق) ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس وقت کہا تھا جبکہ آپ نے خالدص کو قبیلہ جزیمہ کی طرف بھیجا تھا۔ اور
Flag Counter