Maktaba Wahhabi

49 - 234
خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کر دیا تھا، اور معمولی شبہ کی بنا پر ان کا مال و متا ع لوٹ لیا تھا۔ حالانکہ یہ جائز نہیں تھا، اور ان کے ساتھ جو صحابہ ث موجود تھے انہوں نے بھی اس حرکت سے ان کو روکا تھا۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جزیمہ سے ہمدردی برتی، الفت و محبت کا اظہا ر فرمایا اور ان کا مال و متاع واپس کرنے کی ضمانت دی۔ باوجود اس قسم کی لغزشوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ امارتِ لشکر اور فوج کی قیادت میں اُنہی کو مقدم رکھا۔ اور یہ اس لیے کیا کہ اُمور جنگ میں وہ دوسروں کے مقابلہ میں اصلح﴿اہل﴾ تھے۔ اور غلطی معمولی سے معمولی تا ویلوں(یعنی غلط فہمی) کی بناء پر کر لیا کرتے تھے۔ اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ اگر چہ امانت و صداقت میں اصلح﴿یعنی بڑھ کر﴾ تھے لیکن باوجود اس کے رسول ااَللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا: یٰا اَبَا ذَرٍّ اِنِّیْ اَرَاکَ ضَعِیْفًا وَاِنِّیْ اَحِبُّ مَا اُحِبُّ لِنَفْسِیْ لَا تَأْمُرَنَّ عَلٰی اِثْنَیْنِ وَلَا تُوْلَیَنَّ مَالَ یَتِیْمٍ(رواہ مسلم) اے ابوذر! میں تمہیں ضعیف و کمزور پاتا ہوں۔ اور تمہارے لیے میں وہی پسند کرتا ہوں جو میں خود اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تم کسی دو آدمیوں کا بھی امیر نہ بننا اور یتیم کے مال کی کبھی ولایت﴿سرپرستی و حفاظت﴾ نہ کرنا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ ع نہ کو آپ نے امارت اور ولایت سے منع فرما دیا حالانکہ آپ سے مروی ہے: مَا اَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ وَلَا اَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ اَصْدَقُ لَھْجَۃً مِنْ اَبِیْ ذَرِّ نہ سبز گنبدنے سایہ کیا، نہ غبار مٹی نے جگہ دی، ابی ذر سے زیادہ سچے کو۔ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو غزوہ ٔذات سلاسل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بھیجا تھا وہاں ان کے رشتہ دار و قرابتدار رہتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مہربانی کا برتاؤ کرنا چاہتے تھے، اُن سے بہتر آدمی موجود تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہیں بھیجا اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہی کو بھیجا ۔ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امارت اس لیے دی کہ ان کے باپ کا بدلہ لے سکیں۔ غرض یہ کہ بعض لوگوں کو کسی مصلحت راحج کی بناء پر عامل اور گورنر بنا دیتے تھے، حالانکہ ان سے بہتر
Flag Counter