Maktaba Wahhabi

91 - 234
فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ صدقہ و زکوٰۃ کے علاوہ مال فئے وغیرہ میں ضرورت مند لوگوں کو مقدم رکھا جائے یا نہیں؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کے مذہب میں دو قول ہیں، کچھ لوگ ان کو مقدم رکھتے ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں نہیں بلکہ اسلام﴿کے کاموں﴾ کا استحقاق رہے گا۔ یہ لوگ سب کو مشترک اور برابر کے حقدار مانتے ہیں، جس طرح کہ وارث میراث و ترکہ میں مشترک ہیں۔ لیکن صحیح مسلک یہی ہے کہ ضرورت مندوں کو مقدم رکھا جائے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاجت مندوں کو مقدم رکھتے تھے، مثلاً بنی نضیر کے مال میں حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدم رکھا تھا، چنانچہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لَیْسَ اَحَدٌ اَحَقُّ بِھٰذَا الْمَالِ مِنْ اَحَدٍ اِنَّمَا ھُوَ الرَّجُلُ وَسَابِقَۃٌ وَالرَّجُلُ وَ عِنَایَتُہٗ وَالرَّجُلُ وَ بَلَاۂ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُہٗ یہ مال سب میں مشترک ہے یہ مال اس آدمی کو ملے گا جس نے جہاد میں سبقت کی اس کو ملے گا جس نے مشقت برداشت کی، اس آدمی کا حق ہے جو ابتلاء میں پھنس گیا، اور وہ حقدار ہے جو ضرورت مند ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مال چار قسم کے لوگوں پر تقسیم فرمایا: 1۔ سوابق پر جن کی مسابقت کی وجہ سے مال وصول ہوا ہے۔ 2۔ ان لوگوں پر جو مسلمانوں کے لیے خاص قسم کی سعی و کوشش کرتے ہیں، مثلاً والیان امر﴿حکام﴾، اور وہ علماء جو لوگوں کو دین و دنیا کے منافع حاصل کرنے کے راستے بتلاتے ہیں اور جو نقصان اور ضرر کی مدافعت کے لیے مصائب برداشت کرتے ہیں۔ مثلاً مجاہدین فی سبیل اللہ جو اسلام کے لشکر میں موجود ہیں۔ 3۔ اور وہ خاص خاص لوگ جو جہاد و قتال کے طریقے بتلاتے ہیں اور انہیں وعظ و نصیحت کرتے ہیں، اور ان کے مثل۔ 4۔ وہ لوگ جو حاجت مند او رضرورت مند ہیں۔ جس وقت ان چار قسم کے لوگوں کی جانب سے اطمینان ہو جائے گا تو سمجھ لو اللہ تعالیٰ نے اس مال سے لوگوں کو غنی کر دیا، اس کے بعد کفایت کے مطابق دیا جائے، یا اس کے عمل کے مطابق۔
Flag Counter