Maktaba Wahhabi

92 - 234
جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ مال باعتبار آدمی کی منفعت اور بلحاظ اس کی ضرورت و حاجت کے دیا جائے گا اور یہ مال وہ ہو گا جو مسلمانوں کے لیے ہے۔ صدقہ و زکوٰۃ کابھی یہی حال ہے، اور اگر اس سے زیادہ مال ہے، اس میں بھی اسی قدر استحقاق ہے جس قدر اس جیسے مال میں حقداروں کا حق ہے مثلاً مالِ غنیمت، اور مالِ میراث، ان کے حقداربھی متعین و مقرر ہیں۔ امام المسلمین﴿حاکمِ وقت﴾ کو کسی طرح یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے نفس کی خاطر یا قرابت کی وجہ سے یا دوستی اور محبت کی وجہ سے غیر مستحق و غیر حقدار کو کچھ دیدے، چہ جائیکہ حرام میں خرچ کرے مثلاً مخنث؍ خسروں لڑکوں اور امرد آزاد غلاموں کو دیا جائے، طوائف بازاری عورتوں، ادارکار، اداکاراؤں، گلوکاروں، سنگرز، مسخروں کو دیا جائے، یا ہاتھ دیکھنے والوں، کاہنوں، نجومیوں وغیرہ کو دیا جائے، ہاں تألیف قلبی کے لیے ایسا شخص ہے کہ اس کے لیے یہ مال لینا حرام و نا جائز ہے، قرآن مجید میں مؤلفتہ القلوب کے لیے صدقہ و زکوٰۃ دینا بھی مباح کردیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مؤلفتہ القلوب کو فئے کے مال میں سے دیا کرتے تھے اور ان لوگو ں کو بھی دیا جائے جو اپنے قبیلہ کے مانے ہوئے سردار ہوں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع بن حابس سردار بنی تمیم، اور عیینہ بن حصن سردار بنی فزارہ، اور زید الخیر الطائی سردار بنی نبہان، اور علقمہ بن علاشہ سردار بنی کلاب کو دیا تھا، اور جیسا کہ سردار ان قریش اور خلفاء وغیرہ کو دیا تھا۔ مثلاً صفوان بن امیّہ، عکرمہ بن ابی جہل، ابو سفیان بن حرب، سہیل بن عمرو بن ہشام ث اور بہت سے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا، چنا نچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے ایک سونے کا ہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو چار آدمیوں میں تقسیم کردیا۔ اقرع بن حا بس الحنظلی، عیینہ بن حصن فزاری، علقمہ بن علاشۃ العامری، اور بنی کلاب کے آدمی زیدالخیر الطائی جو بنی نبہان کا سردار تھا۔ وہ کہتے ہیں اس تقسیم سے قریش اور انصار بہت خفا ہوئے اور کہنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صنا دید نجد کو دیتے ہیں، اور ہمیں چھوڑدیتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ ان کی تألیف قلبی مقصود ہے، اس وقت ایک آدمی آیا جس کی داڑھی بہت گھنی تھی، رخسار اُٹھے ہوئے، آنکھیں چمکدار، پیشانی بڑی، اور سر منڈا ہو اتھا، کہنے لگا:
Flag Counter