جس شخص نے نصوص کو سن اور سمجھ رکھا ہے اس کی ذمہ داری اس شخص سے مختلف ہوتی ہے جس نے یہ نہیں سن رکھیں چنانچہ ایک عام آدمی پر ان فرائض کا اطلاق نہیں ہوتا جو ایک مفتی، محدث یا مناظر پر عائد ہیں۔۔ اب چونکہ بے شمار ایسے پیچیدہ مسائل، جن میں امت کا اختلاف ہے، بعض اوقات بیشتر لوگوں میں واضح نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو ایسے مسائل کی بابت کسی شرعی یا عقلی دلیل کے علم و فہم کی استطاعت ہوتی ہے تاآنکہ دلیل کسی قطعی یقین کا فائدہ دے، تو ایسے لوگ اپنی استطاعت سے بڑھ کر مکلّف نہیں ہیں، نہ ہی اس بات کے مکلّف ہیں کہ وہ غالب قوی ظن کی بناء پر جس اعتقاد کی استطاعت رکھتے ہیں اس کو وہ اس بنا پر ترک کر دیں کہ ان کو سو فیصد پر یقین دلیل پر قدرت نہیں بلکہ ان کی یہی قدرت و استطاعت ہے، چہ جائیکہ اگر وہ حق کے مطابق بھی ہو، چنانچہ حق کے مطابق اعتقاد رکھنے والے کو اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور ثواب بھی اگر وہ اس سے بڑھ کر قدرت نہیں رکھتا تو اس سے وہ اپنے فرض سے بہرحال عہدہ براں ہو جاتا ہے۔(ج 3 صفحہ 312-314)
اس بناء پر اہل سنت و الجماعت نے اپنا دین، علم و عمل ہر دو صورت میں صرف اور صرف قرآن و سنت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس فہم کے ذریعے سے لیتے ہیں جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست لیا اور پھر آگے تابعین رحمہم اللہ اور ان کے بعد ائمہ و سلف ایسے اپنے ان خوشہ پیسوں اور پیروان راہ کو منتقل کر دیا جو اس پر کسی چیز کو مقدم نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی بھی انسان کی عقل، رائے، قیاس، ذوق، وجدان یا کشف کے ذریعے اس کی کوئی بات کاٹتے ہیں۔ یہ وہ ’’اصل اول‘‘ ہے جو اہل سنت کا پہلا امتیاز ہے اور ان کی جماعت کو ایک خاص رنگ میں رنگ دیتا ہے، اور اس جماعت کے تمام عمومی اوصاف اور اخلاق و سلوک
|