Maktaba Wahhabi

207 - 373
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سمجھ میں آ جائے بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخالف کی حجت سے دفاع کیا جائے۔۔ یہ(جاہل)اگر ان اقوال کی حقیقت جان لیں تو قطعاً ان کے قائل نہ رہیں۔ مقصد یہ ہے کہ سلف کے برعکس جو کہ علم و ایمان میں اکمل تھے اور ان کی غلطیاں کم اور درستیاں زیادہ ہوتی تھیں، بیشتر متاخرین کا دین کے سلسلے میں نہ تو قرآن پر سہارا ہوتا ہے اور نہ ہی اس ایمان پر جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں۔۔ بنا بریں ہر ایمان والے پر واجب ہے کہ دین کی کوئی ایسی بات نہ کرے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کسی چیز کو مقدم نہ کرے بلکہ یہ دیکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا ہے تاکہ اس کی بات آپ کی بات اور اس کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہو جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے راستے پر چلنے والے تابعین باحسان اور ائمہ مسلمین ایسے ہی تھے، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنی عقل کو نصوص کے آڑے نہ آنے دیتا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے علاوہ کسی اور دین کی بنیاد نہ رکھتا۔ ان میں سے جب کسی کو دین کی کسی بات کی معرفت کی ضرورت ہوتی یا کوئی بات معلوم کرنا ہوتی تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے کلام میں نگاہ دوڑاتا، اسی سے علم لیتا اور اسی سے لے کر بات کرتا، اسی کو دیکھتا اور اسی کے بارے میں غوروفکر کرتا اور اسی سے استدلال کرتا۔ یہی اہل سنت کا ’’اصل‘‘ ہے جبکہ اہل بدعات، حقیقت میں اور باطنی طور پر اپنا سہارا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے موصول شدہ تعلیمات پر نہیں رکھتے بلکہ اپنی رائے اور ذوق پر رکھتے ہیں، پھر اگر سنت اس کی موافقت کر رہی ہو تب تو درست ہے ورنہ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور جب سنت اس کی مخالفت کر رہی ہو یا تفویضاً اعراض کرتے ہیں یا تاویلاً تحریف کرتے ہیں۔
Flag Counter