Maktaba Wahhabi

231 - 373
تکفیر ثابت ہوتی ہے کیونکہ مومن تو(بقول قرآن)نیکوکار، پرہیزگار و پارسا ہوتا ہے۔ اس بناء پر انہوں نے یہ مطلب نکال لیا کہ جو شخص نیکوکار و پارسا نہیں ہے تو وہ کافر ہے اور مخلد فی النار ہے۔ پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ کے سبھی لوگ مومن نہیں ہیں، کہ انہوں نے شریعت کے برخلاف حکم و فیصلہ کیا ہے۔ بنا بریں ان لوگوں کی بدعت دو مقدمات پر مبنی تھی: ایک یہ کہ جس نے بھی قرآن کی خلاف ورزی کی، چاہے وہ عمل میں ہو یا رائے میں، کافر ہے، اور دوسرا یہ کہ حضرت عثمان حضرت علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ کے لوگ ایسا ارتکاب کر چکے ہیں۔ گناہوں اور غلطیوں کی بناء پر مسلمانوں کی تکفیر سے از حد احتراز کرنا چاہیے یہ پہلی بدعت ہے جو اسلام میں ظہور پذیر ہوئی۔ اس بدعت کے حاملین نے مسلمانوں کو کافر کہا تھا اور اس کے علاوہ ان کے جان و مال کی شرعی حرمت کو بھی روا قرار دے دیا تھا۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی مذمت اور قتال کے بارے میں صحیح احادیث ثابت ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان لوگوں کے بارے میں جو حدیث ہے اس کے صحیح ہونے کی دس وجوہات ہیں۔ اسی وجہ سے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح مسلم میں اس کو ذکر کیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا ایک قطعہ بیان کیا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ اس قدر مذمت کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اصل میں ان لوگوں کا مقصد قرآن کا اتباع ہی تھا۔ اب اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جس کی بدعت قرآن کی مخالفت اور اس سے اعراض ہی پر مبنی ہے؟(ج 13 ص 20) ٭ خوارج سنت کا تمسک بھی اسی وقت درست سمجھتے ہیں جبکہ مجمل تفسیر میں ہو اور(بزعم
Flag Counter