وقت تک کفر کا حکم عائد نہیں کیا جاتا اور ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جنہیں اپنے عقیدہ کی مخالف نصوص نہ پہنچ پائی ہوں یا انہیں یہ علم نہ ہو پایا ہو کہ رسول اکرم ان نصوص کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ اس لئے مطلقاً تو یہ کہا جائے گا کہ یہ قول کفر ہے، تاہم تکفیر اسی کی ہو گی جس پر وہ حجت قائم ہو جائے جس کا تارک کافر ہوتا ہے نہ کہ سب کی، واللہ اعلم بالصواب۔(ج 28 ص 499-501)
٭ اسی طرح وہ بدعتی بھی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور سنت کے کسی حصے سے خروج کرتا ہے، اور ان مسلمانوں کی جان و مال حلال کر لیتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و سنت سے تمسک رکھتے ہیں، یہ شخص فاسق کی بہ نسبت قتال کا زیادہ مستوجب ہے، اگرچہ وہ اس کو دین سمجھ کر تقرب الی اللہ کا ذریعہ خیال کرتا ہو۔۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ائمہ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ بدعات مغلضہ ان گناہوں سے کہیں بدتر ہیں جن کے کرنے والے انہیں گناہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ اسی امر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی رہی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب سنت سے خروج کرنے والے سے تو قتال کا حکم فرمایا ہے جبکہ ائمہ(امراء)کے ظلم و جور پر صبر کرنے اور گناہوں کے باوجود ان کے پیچھے نماز ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے بارے میں، جس سے کسی گناہ پر اصرار سرزد ہوا تھا یہ شہادت دی تھی کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے اور اس پر لعنت سے منع فرمایا تھا(جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انصاف کرنے کو کہا تھا)مگر ذوی الخویصرہ اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں ان کی تمام تر عبادت و ریاضت اور ورع و تقویٰ کے باوجود فرمایا تھا کہ یہ اسلام سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے)
|