Maktaba Wahhabi

124 - 377
موقف میں بحمدالله تضاد نہیں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ توضیح(ج ۲ ص ۴۴۹) میں ہے’’ ابن حبان اور ابن خزیمہ نے گواس (یحییٰ بن حمید) سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے مگر مجہول کو ثقہ شمار کرنے میں ان کا تساہل معروف ہے۔‘‘ جناب من! یحییٰ بن حمید کو مجہول کہا امام بخاری رحمہ اللہ نے ، ابن یونس رحمہ اللہ اور ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا : اس سے صرف یہی ایک روایت مروی ہے۔ اب اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ یاامام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اپنے اصول کے مطابق اسے ثقہ کہیں یا اس کی روایت اپنی الصحیح میں نقل کریں تو ان کا قول قابل قبول کیسے ہے؟ مولانا صفدر صاحب نے امام ابن حبان کے تساہل کو تسلیم کیا ہے۔(احسن : ج ۲ ص ۹۳) مگر مؤمل رحمہ اللہ بن اسماعیل کو تو کسی نے مجہول نہیں کہا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے قول پر ہم اسے ثقہ باور کرا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ تضاد کیسا؟ امام ابن حبان رحمہ اللہ اگر مستور و مجہول کو ثقہ کہنے میں متساہل ہیں تو دوسری طرف جرح میں وہ متشدد ہیں۔ ملاحظہ ہو حاشیہ الرفع والتکمیل (ص ۲۰۴) نیز الرفع (ص ۱۷۶،۱۷۹)، انہاء السکن (ص ۴۶) مگر تشدد کے باوجود امام ا بن حبان رحمہ اللہ ، مؤمل رحمہ اللہ کو کتاب الثقات میں ذکر کرتے ہیں ۔ متشدد کی توثیق تو مقبول ہوتی ہے ۔ لہٰذا مؤمل رحمہ اللہ کے بارے میں ان کا فیصلہ قطعاً تساہل پر مبنی نہیں کیونکہ ان کا تساہل تو مستور و مجہول کو ثقہ کہنے میں ہے۔ ڈیروی صاحب نے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا ورنہ وہ تضاد کا الزام دینے کی جسارت نہ کرتے۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ توضیح (ج ۲ ص ۶۲) میں ہے کہ ’’حافظ ذہبی رحمہ اللہ سے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت میں تساہل ہوا اور تلخیص المستدرک میں امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت میں ان سے متعدد فروگزاشتیں ہوئی ہیں۔‘‘ مگر دوسری طرف کہتے ہیں کہ مؤمل ضعیف ہوتا تو امام حاکم، علامہ ذہبی رحمہ اللہ مؤمل رحمہ اللہ کی حدیث کو صحیح نہ فرماتے۔‘‘ جناب من! جو مثالیں اس ناکارہ نے تساہل کے حوالے سے پیش کی ہیں ان میں باحوالہ ذکر ہے کہ خود علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس سند کے راویوں کو میزان میں ضعیف، کذاب اور مجہول قرار دیا ہے۔ اس لیے امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت میں ان سے تساہل ہوا۔ مگر یہاں تو وہ مؤمل کو خود صدوق اور حسن درجہ کا راوی
Flag Counter