Maktaba Wahhabi

233 - 377
و قال حدیث صحیح علی شرط مسلم۔ (اعلاء السنن : ۱۱۶۹۰) کہ اس سے امام نسائی رحمہ اللہ نے سکوت کیا ہے لہٰذا یہ امام نسائی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہوئی اور علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اسے حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ شرط مسلم کے مطابق صحیح ہے۔‘‘ اندازہ کیجیے، امام نسائی رحمہ اللہ کے سکوت کو ان کے ہاں صحت کی علامت قرار دیا جاتا ہے حالانکہ امام نسائی رحمہ اللہ نے فاتحہ خلف الامام کی روایت پر بھی سکوت کیا ہے جو نافع بن محمود رحمہ اللہ کے طریق سے مروی ہے(فتدبر) یہی نہیں، بلکہ مولانا عثمانی رحمہ اللہ مرحوم نے اس سلسلہ میں ایک روایت نصب الرایہ (ج ۳ ص ۳۵۹) سے محمد رحمہ اللہ بن اسحاق عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے بحوالہ ابن ابی شیبہ نقل کی ہے اور فرمایا ہے :’’ رجال محتج بھم‘‘ کہ اس کے راوی ایسے ہیں جن سے احتجاج کیا گیا ہے (اعلاء السنن : ج ۱۱ ص ۶۸۸)۔ ابن اسحاق یہاں تو قابل احتجاج ہو مگر فاتحہ خلف الامام میں ناقابل احتجاج ، سبحان الله ۔! علامہ تقی عثمانی رحمہ اللہ صاحب نے بھی ابن اسحاق رحمہ اللہ کی اس حدیث کو ذکر کیا اور امام حاکم رحمہ اللہ سے اس کی علی شرط مسلم تصحیح نقل کی بلکہ یہ بھی فرمایا: حدیثہ لا ینزل عن الحسن عند المحققین کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث محققین کے نزدیک حسن درجہ سے کم نہیں ( تکلمہ فتح الملھم : ج ۲ ص ۳۸۹) محققین کا جب یہ قول ہے تو اب اس سے اختلاف کس تحقیق پر مبنی ہے ؟ اس لیے ابن رحمہ اللہ اسحاق کی اس حدیث سے استدلال بلکہ اس کی تحسین و تصحیح ایک حقیقت ہے جس کا انکار محض ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اور ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ راقیم اثیم نے عرض کیا تھا کہ حضرت مولانا شیخ الہند محمود الحسن رحمہ اللہ نے اگر اکثر محدثین کی آرا کے برعکس ابن رحمہ اللہ اسحاق کو متروک اور ضعیف قرار دیا ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ انھوں نے مذہبی حمیت میں ایک خود ساختہ آیت فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰه والرسول والی اولی الامر منکم بھی لکھ دی ہے(توضیح: ۱؍۲۵۳،۲۵۴) جس کے جواب میں جناب ڈیروی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے آیت پیش کرنے
Flag Counter