Maktaba Wahhabi

130 - 377
اسی طرح ڈیروی صاحب کا یہ فرمانا کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ کی تائید کرکے علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ توڑا ہے؟ حیرت ہے کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ اس کلام کے باوجود جسے بڑے طمطراق سے انھوں نے نقل کیااسے:’ ’ صدوق مستقیم الحدیث‘‘ کہتے ہیں۔ اگر ان کا یہ کلام سلیمان رحمہ اللہ کے ضعیف ہونے کا باعث ہے تو وہ صدوق اور مستقیم الحدیث کیسے ہیں؟ امام ابوحاتم رحمہ اللہ تواس کلام کے باوجود سلیمان رحمہ اللہ کو صدوق کہیں، نہ ہی حافظ ذہبی رحمہ اللہ اسے باعث ضعف سمجھیں مگر ڈیروی صاحب کے نزدیک سلیمان رحمہ اللہ ضعیف ہے۔ سبحان اللّٰه ۔! یہ بات بھی عجیب کہی کہ ’’حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ توڑا ہے ‘‘ وہ فیصلہ کیا ہے ؟ قارئین کرام اس کی بھی ضروری تفصیل ملاحظہ فرما لیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’ سلیمان عن الولید حدثنا ابن جریج عن عطاء عن عکرمۃ عن ابن عباس‘‘ کی سند سے حفظ قرآن کے لیے ایک حدیث بیان کی ہے، جس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وھو مع نظافۃ سندہ حدیث منکر جداً فی نفسی منہ شیء فاللّٰه اعلم فلعل سلیمان شبہ لہ وادخل علیہ کما قال فیہ ابوحاتم لو ان رجلاً وضع لہ حدیثا لم یفھم ۔ (میزان: ج ۲ ص ۲۱۳،۲۱۴) ’’اوروہ حدیث نظیف سند کے باوجود بہت منکر ہے ۔ میرے دل میں اس کے بارے میں کھٹکا ہے۔ شاید سلیمان رحمہ اللہ کو دھوکا دیا گیا ہو اور اس پر حدیث بنا کر بیان کی گئی ہو جیسا کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی اس پر حدیث گھڑ کر پیش کرتا تووہ سمجھ نہ پاتے۔‘‘ غور فرمائیے علامہ ذہبی رحمہ اللہ منکرکہنے کے باوجود اس کی سند کو نظیف کہتے ہیں۔ ثقہ و صدوق راوی سے ایسا تغافل بعید نہیں۔ بعض ہوشیار و عیار راوی ثقات کے ساتھ ایسا معاملہ کرتے تھے۔ جیسا کہ معمر کے ساتھ ان کے بھتیجے نے کیا جیسا کہ تہذیب (ج۱ ص ۱۲) کے حوالے سے پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سلیمان رحمہ اللہ کے ترجمہ میں اگرچہ اس میں نکارت کا انتساب سلیمان رحمہ اللہ کی طرف کیا ہے بلکہ السیر(ج ۹ ص ۲۱۸) میں اسی بنا پر کہہ دیا کہ وہ منکر الحدیث ہے تواس سے مراد بھی سلیمان کا تفرد ہے۔ یہ نہیں اس کی تمام روایات منکر اور
Flag Counter