Maktaba Wahhabi

142 - 377
قدری ہونا اس کے ضعیف ہونے کا سبب کیسے بن گیا؟ امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول تو انھیں نظر آگیا کہ ’’ انکر علیہ بعض حدیثہ‘‘ کہ انھوں نے اس کی بعض روایتوں پر انکار کیا ہے، مگر اسی تہذیب میں یہ قول نظر کیوں نہیں ایا کہ ’’ یوثق حسان بن ابراہیم و یقول حدیثہ حدیث اھل الصدق‘‘ کہ انھوں نے حسان کی توثیق کی اور فرمایاہے کہ اس کی حدیث اہل صدق کی حدیث کی طرح ہے۔ بعض روایات پر انکارا گر ’’ضعیف‘‘ہونے کا سبب ہے تواس کی توثیق کیسی اور اہل صدق کی مانند اس کی روایت کیسے؟ اسی طرح امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ان کے تفرد اور اغلاط کاذکر کرنے کے باوجود ’’اہل الصدق‘‘ میں قرار دیا ہے ضعیف نہیں کہا۔ ڈیروی صاحب ضعیف کس بناپر کہہ رہے ہیں؟پھر امام ابن عدی نے ’’ یغلط فی الشیء و لا یتعمد‘‘ فرمایا کہ وہ کچھ شے میں غلطی کرتا ہے اور ایسا عمداً نہیں کرتا۔ آخری الفاظ ڈیروی صاحب نے کیوں حذ ف کر دئیے ہیں؟ امام نسائی رحمہ اللہ نے ’’ لیس بالقوی‘‘ کہا ہے تو عر ض ہے کہ ڈیروی صاحب کے شیخ محترم تو فرماتے ہیں ’’ لیس بالقوی‘‘ کی جرح مبہم ہے۔(تسکین الصدور ص ۳۱۸)۔ اسی طرح امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ’’ ربما اخطأ‘‘کہا ہے جس کے معنی خیر سے ڈیروی صاحب نے یہ کیے ہیں کہ ’’اس نے اکثر غلطیاں کی ہیں۔‘‘ مگر غور فرمائیے : ان کے شیخ مکرم لکھتے ہیں ’’جمہور کی توثیق کے بعد صرف ’’ ربما أخطأ‘‘ کے جملہ سے ان کو ضعیف قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا ،ویسے کون راوی ایسا ہے جس سے کبھی بھی خطا اور وہم نہ ہوا ہو؟‘‘ (تسکین الصدور ص ۲۷۰) ۔ گویا ’’ ربما اخطأ‘‘ کے معنی کبھی خطا کرنا ہے اکثر نہیں ا ور جمہور کی توثیق کے بعد اس جملہ سے راوی کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔ سیدھی بات ہے کہ اگر اس سے ضعیف ہونا ثابت ہوتا ہے تو امام ابن حبان رحمہ اللہ ثقات میں ذکر کیوں کرتے۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حسان قطعاً ضعیف نہیں جیسا کہ ڈیروی صاحب نے کہا ہے۔ البتہ ان سے کچھ خطائیں ہوئی ہیں اور ایسے راوی کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی بلکہ حسان تو صحیح بخاری اور مسلم کے راوی بھی ہیں ۔ اس لیے انھیں ضعیف قرار دینا محض ہٹ دھرمی ہے۔
Flag Counter