Maktaba Wahhabi

156 - 377
علاوہ ازیں امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اسے صالح الحدیث ہی نہیں کہا بلکہ اس روایت کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ ھذا تصحیح ممن قال بالقراء ۃ خلف الامام اس سے ان حضرات کے قول کی تصحیح ہوتی ہے جو قراء ت خلف الامام کے قائل ہیں۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ اس کے باوجود موسیٰ بن شیبہ کو ضعیف قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟ اس لیے جناب ڈیروی صاحب ’’لین ‘‘ کو اصطلاحی معنی میں سمجھیں، لغوی معنی میں نہیں۔ البتہ انھوں نے جو یہ فرمایا کہ اثری صاحب توضیح(ج ۲ ص ۱۱۰) میں ابراہیم بن مسلم الہجری کے بارے میں تقریب سے ’’ لین الحدیث‘‘ نقل کرتے ہیں اور حاشیے میں لکھتے ہیں ابراہیم بن مسلم گو ضعیف ہے ، اس میں بظاہر معقولیت ہے اور اسی بنا پر ڈیر وی صاحب لکھتے ہیں :’’حضرت اثری نے لین کو ضعیف کہہ کراپنا منہ خود سیاہ کیا ہے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۱۷۸) مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ توضیح الکلام (ج ۲ ص ۱۱۰) میں پوری تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابن جریر رحمہ اللہ کی ایک روایت جس کے راویوں کو مولانا ظفر احمدعثمانی رحمہ اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے اس کی وضاحت میں عرض کیا گیا ’’کہ اس میں ابراہیم بن مسلم ہجری لین الحدیث ہے اور مولانا صفدر صاحب نے اس کی تضعیف کی ہے ۔ اگر یہ کسی اور سند سے ہے اور راوی ثقہ ہیں تو فھو المراد‘‘ یعنی اس روایت کے راویوں کو ثقہ نہیں کہا جاسکتا ہے جیسا کہ مولانا عثمانی مرحوم نے فرمایا ہے۔ظاہر بات ہے کہ جس سند کے راویوں میں ایک راوی ’’ لین الحدیث‘‘ ہو ان کو ثقہ نہیں کہاجائے گا۔ البتہ اس کے حاشیہ میں عرض کیا گیا کہ یہ روایت ابراہیم ہجری رحمہ اللہ سے حفص رحمہ اللہ بن غیاث ، محمد رحمہ اللہ بن دینار، علی رحمہ اللہ بن مسہر، عبدالعزیز بن مسلم رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں ۔ بلکہ قاضی ابویوسف بھی اسے ابراہیم سے روایت کرتے ہیں، مگر افسوس مولانا صفدر صاحب نے دھوکا دینے کے لیے یہ بھی لکھ دیا کہ اس میں ایک راوی محمد رحمہ اللہ بن دینار ہے ۔ امام ابن معین رحمہ اللہ ، دارقطنی رحمہ اللہ ، اور نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے ۔‘‘ (احسن : ج ۱ ص ۱۵۱) حالانکہ محمد بن دینار اس میں منفرد نہیں۔ لہٰذا اس پر
Flag Counter