Maktaba Wahhabi

158 - 377
کہ انھوں نے فرمایا کہ علاء رحمہ اللہ بن الحارث کو ’’امام بخاری رحمہ اللہ نے منکر الحدیث کہا اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آخر میں ان کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔‘‘ قارئین کرام ! غور فرمائیں علاء رحمہ اللہ بن حارث کی روایت متابعت میں ہے معرض استدلال میں نہیں۔ا س کے باوجود اس پر جرح کی کل کائنات۔ یہ دو قول ہیں جوانھوں نے نقل کیے۔ جب کہ خود ان کا اختیار کردہ اصول یہ ہے کہ توثیق و تعدیل میں ہم نے جمہور کا دامن نہیں چھوڑا(احسن : ج ۱ ص ۳۱) جمہور اور اکثر ائمہ جرح و تعدیل کی رائے کیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے کہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ صحیح الحدیث ہے۔ ابن معین رحمہ اللہ ، ابن المدینی رحمہ اللہ ، یعقوب رحمہ اللہ بن سفیان رحمہ اللہ ، دحیم رحمہ اللہ ، ابوحاتم ، رحمہ اللہ ابو داؤد رحمہ اللہ ،ابن حبان رحمہ اللہ اسے ثقہ کہتے ہیں۔ البتہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے مزید فرمایا کہ وہ قدری تھے اور حافظہ متغیر ہو گیا تھا(تہذیب : ج ۸ ص ۱۷۷ وغیرہ) مولانا صفدر صاحب نے امام ابو داؤد رحمہ اللہ سے یہ تو نقل کر دیا کہ آخر میں اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا مگر ان سے توثیق نقل نہیں کی۔ بلکہ ہم نے مولانا صفدر صاحب کا یہ اصول بھی ذکر کیا ہے کہ ’’ثقہ کا معمولی تغیر قابل جرح نہیں۔‘‘ (احسن : ج ۱ ص ۲۴۹) مزید عرض ہے کہ حضر ت موصوف یہ بھی فرماتے ہیں :’’امام احمد رحمہ اللہ نے ان (سعید بن ابی ہلال) کو مختلط کہا ہے مگر صحاح ستہ کے مصنفین نے ان کی روایت لی ہے اور ان پر اختلاط کے الزام کو درخور اعتناء نہیں سمجھا۔‘‘ (تسکین الصدور: ص ۳۱۸) علاء رحمہ اللہ بن حارث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ سبھی اصحاب صحاح ستہ نے روایت لی ہے۔ کیا اس صفدری اصول کے بعد تغیر حفظ کا اعتراض درست ہے ؟ شاگرد رشید نے ان حقائق سے تو آنکھیں بند کر لیں البتہ یہ کہہ کر اپنے دل کا بوجھ کم کر لیا کہ اثری صاحب نے نقل کیا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے صدوق کہا ہے۔ حالانکہ وہاں اس کے ساتھ ’’ لکن رمی بالقدر و قد اختلط‘‘ کے الفاظ بھی ہیں اوریہ ان کی خیانت ہے۔ ملخصاً (ایک نظر: ص ۲۵۷) مگر ڈیروی صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ توضیح میں جب یہ وضاحت ان کے شیخ مکرم کے حوالہ سے موجود ہے کہ ’’ثقہ کا معمولی تغیر قابل جرح نہیں۔‘‘ اسی طرح کسی راوی پر
Flag Counter