Maktaba Wahhabi

250 - 377
نہیں اور اس کا راوی مجہول ہے۔ لیکن اس کے علاوہ امام مالک رحمہ اللہ کی ہشام پر جرح منقول ہے، جب وہ عراق چلے گئے تھے جیسا کہ تہذیب(ج ۱۱ ص ۵۰) وغیرہ سے عیاں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں امام مالک رحمہ اللہ نے ابوالحویرث عبدالرحمن بن معاویہ کے بارے میں کہا ہے ’’ لیس بثقۃ‘‘ کہ وہ ثقہ نہیں (مقدمہ مسلم ص ۱۹، تہذیب : ۶؍۲۷۲) حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول پر انکار کیا ہے۔ چنانچہ عبدالله بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أنکر أبی ذٰلک من قول مالک۔ (تہذیب) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ محمد رحمہ اللہ بن فلیح نے فرمایا: نھانی مالک عن شیخین من قریش و قد اکثر عنہما فی الموطأ وھما مما یحتج بحدیثھما (جزء القراء ۃ : ص ۱۸، تہذیب: ۹؍ ۴۱) مجھے امام مالک رحمہ اللہ نے قریش کے دو شیوخ سے منع کیا حالانکہ انھوں نے موطا میں ان سے روایت لی اور وہ دونوں ایسے ہیں کہ ان سے احتجاج کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سے ممانعت کا تعلق حدیث کے حوالے سے نہیں ورنہ وہ خود ان سے روایت نہ لیتے جیسا کہ ہشام رحمہ اللہ کے بارے میں ان کے کلام کے متعلق امام یحییٰ بن معین نے فرمایا ہے: جس سے تاریخ بغداد کی روایت کی تائید ہوتی ہے۔ بلکہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جامع بیان العلم (ج ۲ ص ۱۵۷) میں امام مالک رحمہ اللہ کا اہل کوفہ کے بارے میں جو تبصرہ نقل کیا ہے وہ اس پر مستزاد ہے۔ ہم توان کے اس تبصرہ کو بھی صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ (۴)۔۔امام مالک رحمہ اللہ نے سعید پر نہیں بلکہ سعد بن ابراہیم پر بھی کلام کیا ہے کیونکہ وہ بھی ابن رحمہ اللہ اسحاق کی طرح امام مالک رحمہ اللہ کے نسب میں کلام کرتے تھے جیسا کہ تہذیب (ج ۳ ص ۴۶۵) کے حوالہ سے توضیح (ج ۱ ص ۲۳۷) میں عرض کیا گیا۔ مگر ڈیروی صاحب فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے جرح نہیں کی کیونکہ وہ ثقہ تھا ، محدث ساجی فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے سعد رحمہ اللہ سے روایت چھوڑ دی تھی لیکن مجھے یاد نہیں کہ اس میں کلام بھی کرتے تھے۔ حالانکہ محدث ساجی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے کلام کی نفی نہیں کی بلکہ کلام کرنے کے بارے میں اپنے عدم علم کا اظہار کیا ہے جبکہ المعیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سے
Flag Counter