Maktaba Wahhabi

264 - 377
میں نے امام طبرانی رحمہ اللہ سے کہا: آپ کے یہاں یہ روایت شعبہ عن عبدالملک بن میسرۃ عن طاؤس عن ابن عباس کی سند موجودہے تو امام طبرانی نے فرمایا: ہاں ، غندر رحمہ اللہ اور ابن رحمہ اللہ ابی عدی کے واسطہ سے یہ روایت موجود ہے۔ میں نے پوچھا: ان دونوں سے کون روایت کرتا ہے ؟ توانھوں نے فرمایا:ہمیں عبداللّٰه بن احمد بن حنبل عن ابیہ کے واسطہ سے ان دونوں سے یہ روایت ملی ہے۔(جب انھوں نے یہ کہا) تب میں نے انھیں متہم قرار دیا: فاتھمتہ اذ ذاک پھرحافظ ابوعلی رحمہ اللہ نے فرمایا: شعبہ رحمہ اللہ سے یہ روایت سوائے عثمان رحمہ اللہ بن عمر کے او رکوئی روایت نہیں کرتا (معرفۃ علوم الحدیث ص ۱۴۳، السیر، لسان : ج ۳ ص ۷۳ وغیرہ) علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اسی واقعہ کے بعد فرمایا ہے کہ :یہ حافظ حجۃ امام طبرانی رحمہ اللہ پر سختی اور شدت ہے۔ اس کے بعد انھوں نے حافظ ضیاء الدین رحمہ اللہ مقدسی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مذاکرہ کے دوران میں یہ امام طبرانی رحمہ اللہ کا وہم ہے (کہ انھوں نے امام ابوعلی رحمہ اللہ سے کہہ دیا کہ شعبہ رحمہ اللہ سے یہ روایت غندر رحمہ اللہ اور ابن ابی عدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں) حالانکہ خود انھوں نے ’’احادیث شعبہ‘‘ میں اسے عثمان رحمہ اللہ بن عمر کی سند سے ہی روایت کیا ہے ۔ اگر کسی ایک حدیث میں وہم کی بنا پر متہم قرار دیا جائے تو اس سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔(السیر: ج ۱۶ ص ۱۲۶،۱۲۷) یہ ہے حافظ ابو علی رحمہ اللہ کے تعنت کا پس منظر ۔ بجا فرمایا کہ اگراس نوعیت کے وہم سے کسی کو متہم قرار دیا جائے تو پھر متہم ہونے سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ لہٰذا حافظ ابوعلی رحمہ اللہ کا امام طبرانی رحمہ اللہ کو متہم قرار دینا سراسر تشدد اور سختی کا نتیجہ ہے۔ قارئین کرام ! حافظ ابوعلی رحمہ اللہ کے خلاف ڈیروی صاحب کی اس ساری کارروائی کا مقصد یہ ہے کہ انھوں نے یہ کہہ دیا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ سے عن سبرۃ بن الربیع عن ابیہ کہا ہے اور یہ ان کا وہم ہے۔ امام زہری رحمہ اللہ سے یہ روایت ’’ ربیع بن سـبرۃ عن ابیہ ‘‘کے طریق سے ہے۔ اس کے دفاع کا طریقہ تو یہ تھاکہ وہ ثابت کرتے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ بھی کسی نے یہ روایت ’’زہری عن سبرۃ‘‘ کی سند سے بیان کی ہے۔ مگر وہ یہ تو کرنہ سکے الٹا امام ابوعلی رحمہ اللہ کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا ۔ ڈیروی صاحب اور ان کے حلقے کی مزید تشفی
Flag Counter