Maktaba Wahhabi

291 - 377
علماء اور فقہاء میں شمار ہوتے ہیں۔جیسا کہ السیر (ج ۱۵ ص ۵۰۱) وغیرہ میں ہے۔ علاوہ ازیں ابوبکر بن علی الحافظ ، ابوالحسن رحمہ اللہ علی بن محمد بن اسماعیل الطوسی ، عبدالله بن سعد اور ایک جماعت نے اس سے روایت لی ہے۔ (الانساب : ۲؍۵۱۹، التاریخ الاسلام :ص ۴۴۰) امام بخاری رحمہ اللہ انہی کے ہاں نیشاپور میں ٹھہرے اور علامہ السمعانی کی تصریح کے مطابق انھوں نے امام بخاری رحمہ اللہ اور ان سے التاریخ الکبیر کا باب فضیل تک سماع کیا۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسی کی سند سے التاریخ الکبیر کو روایت کیا ہے۔ اور اہل قزوین محمد بن عطیہ القزوینی عن محمد بن سلیمان سے التاریخ الکبیر کی روایت کرتے ہیں۔ بلکہ امام ابوالحسن القطان اور ان کے رفیق سفر امام ابو داؤد سلیمان بن یزید الفامی بھی ابن عطیہ عن محمد بن سلیمان کی سند سے ہی التاریخ الکبیر کی روایت کرتے ہیں(الارشاد: ۳؍۸۵۹، تاریخ قزوین :۱؍۴۵۵) اسی طرح شیخ ابن خیر الاشبیلی نے بھی التاریخ الکبیر کی روایت بواسطہ ابن عبدالبر اسی محمد رحمہ اللہ بن سلیمان کی سند سے کی ہے(فہرسۃ ابن خیر : ص ۱۷۴)۔ امام ابواحمد رحمہ اللہ الحاکم نے کتاب الاسامی والکنی میں متعدد مقامات پر اسی ابن فارس رحمہ اللہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ الکبیر کی نصوص ذکر کی ہیں۔ مثلاً نمبر ۲،۴،۸،۱۱،۱۳،۱۵وغیرہ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ ، شعب الایمان میں متعدد مقامات پر او رکتاب القراء ۃ (ص ۵۲) اور المعرفۃ میں اپنی سند سے اسی محمد رحمہ اللہ بن سلیمان بن فارس کے واسطہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ سے استفادہ کیا۔ خطیب بغدادی نے اسے ’’صاحب التاریخ‘‘ کہا۔ الجامع (ج ۱ ص ۳۵۳) اور تاریخ بغداد میں متعدد مقامات پر اس کی سند سے امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ سے استفادہ کیا ہے اور الکفایہ (ص ۵۰۰)باب الروایۃ إجازۃ عن اجازۃ میں امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ الکبیر جس کا سماع محمد رحمہ اللہ بن سلیمان بن فارس نے کیا اور ان سے اس کا سماع اور روایت کرنے والوں کا نام بنام ذکرکیا ہے اور فرمایا ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس سے اس کو نقل کیا ہے۔ ان تمام حضرات کا اس کی روایت پر اعتماد اس بات کی دلیل ہے کہ وہ محمد بن سلیمان کو ثقہ اور قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ اگر وہ ’’بہت شریر اور غیر ثقہ ‘‘ہوتا تو ابن رحمہ اللہ القطان ، ابن
Flag Counter