Maktaba Wahhabi

370 - 377
پہلے جو خود امام ابن حبان رحمہ اللہ کی المجروحین اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی المیزان کا حوالہ دیا گیا ۔کیا ان میں یہ حوالہ نہیں جو امام ابن حبان رحمہ اللہ کے نام سے نقل ہوا ہے؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو ڈیروی صاحب تہذیب کے حوالے سے اپنے قارئین کو دھوکا کیوں دیتے ہیں؟ایک ہے ائمہ متقدمین کے حوالے سے بات کہ وہ کون حضرات ہیں جنھوں نے ابن لہیعہ رحمہ اللہ سے ان کی کتابیں جل جانے سے پہلے سماع کیا ہے۔ یہی حوالہ راقم نے ذکر کیا جو خود المجروحین میں بھی موجود ہے۔ دوسری بات ہے کہ اس کے متعلق امام ابن حبان رحمہ اللہ کا موقف کیا ہے ۔ بجافرمایا کہ تہذیب میں بلکہ المجروحین میں بھی خود امام ابن حبان رحمہ اللہ کا موقف اس کے خلاف ہے، جو انھوں نے کان اصحابنا یقولون ( ہمارے اصحاب فرماتے ہیں) کہہ کر نقل کیا ہے اور راقم نے جو انھیں دوسرے محدثین کا ہم نوا قرار دیا وہ درست نہیں۔ تاہم یہ بھی عرض کیا گیا کہ عبادلہ اربعہ جب ابن لہیعہ رحمہ اللہ سے روایت کریں اور وہ روایت معنعن نہ ہو تو وہ روایت عندالاحناف بھی حجت ہے(توضیح: ۱؍۱۹۸) اوراس کے لیے علامہ نیموی رحمہ اللہ کی التعلیق الحسن( ص ۹،۱۰) کا حوالہ بھی ذکر کیا ۔ مزید عرض ہے کہ علامہ محمد یوسف رحمہ اللہ بنوری فرماتے ہیں: منشأ تضعیفہ ان کتبہ احترقت سنۃ سبعین و مائۃ فکان یروی من حفظہ فاختلط۔ (معارف السنن: ۱/۹۲) کہ ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی تضعیف کا سبب یہ ہے کہ اس کی کتابیں ۱۷۰ھ میں جل گئی تھیں اختلاط میں مبتلا ہو گئے تھے اور زبانی روایات بیان کرنے لگے تھے۔ یہی بات ان کے شیخ محترم علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے العرف الشذی (ص ۴۳) میں کہی ہے۔ یعنی ضعف اور ترک کا باعث کتابیں جل جانے کے نتیجہ میں اختلاط ہے۔ اور یہ بات دوسرے مقام پر ہم بحوالہ ذکر کر چکے ہیں کہ اعلاء السنن میں مولانا عثمانی رحمہ اللہ نے مطلق طور پر ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی روایات کو حسن قرار دیا ہے بلکہ خود مولانا صفدر صاحب بھی بوقت ضرورت اس کی روایت حسن بلکہ اس کی صحت تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ ’’مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینہ میں‘‘ (ص ۱۰۸، ۱۰۹ ) اور ’’آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے‘‘ (ص ۹۱) میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ لہٰذا جب علمائے احناف اس کی روایت کو قبول کرتے ہیں تواس کی اس روایت پر جرح محض عصبیت کا نتیجہ ہے۔
Flag Counter