Maktaba Wahhabi

87 - 377
راقم اثیم کے موقف میں تضاد ثابت کرنے کے لیے جو تین مثالیں جناب ڈیروی صاحب نے دیں ، نمبر وار ان کی وضاحت دیکھ لیجیے: ۱۔۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ابن خزیمہ (ج ۳ ص ۶۴) میں اور مختصراً صحیح ابن حبان (ج ۴ ص ۵۹) میں بھی مذکور ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے مقدمہ صحیح ابن حبان(ج ۱ ص ۹۰،۹۱) میں صراحت کی ہے کہ ’’مدلسین کی معنعن روایت سے ہم تبھی احتجاج کرتے ہیں جب انھوں نے سماع کی صراحت کی ہو۔ اس کے بعد ہم ان کی معنعن روایت کو لانے میں کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ‘‘امام ابن حبان رحمہ اللہ کا یہ اعلان پھر ان کا ابن عجلان کی معنعن روایت کو لانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک صراحت سماع ثابت ہے ۔ گو انھوں نے اسے معنعن ذکر کیا ہے۔ بلکہ مختصراً یہ روایت ابو داؤد (ج۱ ص ۲۳۳) میں ہے اور اس میں ابن عجلان ثنا عبیدالله بن مقسم اور بیہقی (ج ۳ ص ۸۶) میں حدثنی عبیدالله ہے۔ بتلائیے! تصریح سماع اور کیا ہوتی ہے ؟ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن خزیمہ کے حاشیہ میں کہا ہے : اسنادہ حسن صحیح فقد توبع علیہ ابن عجلان کما بینتہ فی صحیح ابی داودکہ اس کی سند حسن صحیح ہے اور ابن عجلان کی متابعت کی گئی ہے۔ جیسا کہ میں نے صحیح ابو داؤد میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت سنداً حسن صحیح ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے صحیح سنن ابی داو‘د ،رقم ۶۱۲ (ص ۱۵۲ج ۳) ۲۔۔ دوسری روایت کے بارے میں خود ڈیروی صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ جزء القراء ۃ میں سماع کی صراحت موجود ہے مگرا س پر ان کا اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت منقطع ہے ۔ یہاں بھی دراصل ڈیروی صاحب نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے جزء القراء ۃ کے اس نسخہ پر اعتماد کیا جس پر محمود اور عبدالله بن محمد کے مابین ’’ قال ثنا البخاری‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کا واسطہ گرا ہوا ہے۔حالانکہ جزء القراء ۃ (ص ۲۰) طبع دہلی میں امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ روایت موجود ، اسی طرح جزء مطبوعہ گوجرانوالہ (ص ۳۷) میں بھی سماع کی صراحت موجود ، مزید برآں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ روایت بواسطہ عبدالله بن محمد عن سفیان روایت کی ہے اور سفیان بن عیینہ سے یہی روایت امام حمیدی رحمہ اللہ نے المسند (ج ۲ ص ۳۲۶)
Flag Counter