Maktaba Wahhabi

21 - 83
’’کیا بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہووہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لئے ہیں،اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لئے نہیں ہے۔اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔یہی(دین قیم)ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ یہ تو رہی غیر اللہ کے حق تشریع و قانون سازی کے انکار اور نفی کی بات جو کہ کلمہ شہادت کا جزو اول ہونے کے ناطے ناگزیر ہے پھر جہاں تک اللہ کی حاکمیت کے اثبات کا تعلق ہے تو وہ اسی صور میں قابل اعتبار ہے کہ اسکا فرمایا مستند اور اس کا کہا قانون تسلیم ہو۔قانون دانوں سے پوچھیے آپ کا دستور اس دوسری بات سے بھی انکاری ہے اگر اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو دستوراً ناقابل ترمیم ناقابل تعطیل اور ناقابل تنسیخ قانون اور ہر آئین سے بالاتر آئین نہ مانا جائے تو اس کی حاکمیت کا دعوی کلمہ گوئی کی شرط تک پوری نہیں کرتا اس کی شریعت کو غیر مشروط اور اٹل قانون مانے بغیر اسے حاکم اعلی کا خطاب دینا ایک لغو بات ہے…اللہ کو رب ماننا مگر اس کے نازل شدہ حکم کو حتمی قانون کا درجہ نہ دینا،شعبہ سیاست کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کا دستوری طور پر پابند نہ ہونا مگر مذہبیطور پر آپ کورسول کہنا وہ بدترین مذاق ہے جو اس سیکولر ایوان میں پورے دستوری اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ کسی کو جج تو کہیں مگر اسے کوئی فیصلہ کرنے کا حق دینے پر تیار نہ ہوں دنیا میں آپ کسی سے یہ مذاق کرنے کے روادار نہیں تو پھر مالک الملک کے سامنے کس برتہ پر یہ جرات کرلی جاتی ہے؟ ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾(النساء :65) ’’نہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی
Flag Counter