Maktaba Wahhabi

23 - 83
قابل اطلاق ہوں اور ضروری تطبیق کے ساتھ اس وقت تک بدستور نافذ رہیں گے جب تک کہ مناسب مقنّنہ انہیں تبدیل ا منسوخ نہ کر دے یا ان میں ترمیم نہ کر دے(ترجمہ از حکومت پاکستان وزارت عدل و پارلیمانی امور شعبہ عدل ص 167) دوسری بات یہ کہ(1)227کا یہ کہنا کہ کتاب و سنت کی تعلیمات کے خلا ف کوئی قانون صادر نہ ہوگا ایک خوش کن اور امید افزا بات ضرور ہے مگر اس سے متصل بعد کی شق پڑھیں تو اس کا سارا مزہ کرکرا ہوجات ہے۔چنانچہ آرٹیکل(1)227میں مذکور اس خوشنما بات کی عملی تفسیر صرف اور صرف آرٹیکل 228تا(4)230کی صورت میں کی جاسکتی ہے۔اب ذرا(4)230کو پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ کسی قانون کے خلاف اسلام ہونے کا فتوی اسلامی نظریاتی کونسل کی مہر لگ کر بھی آجائے تو ایسا قانون پاس کرتے وقت پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کو نظریاتی کونسل کی یہ رپورٹ مد نظر رکھنی ہوگی۔غور فرمائیے صرف مد نظر رکھنی ہوگی!یعنی وہ اسے مانے یا نہ مانے اس میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔ جبکہ(3)230کی رو سے اسمبلیاں نظریاتی کونسل کے فتوی کا انتظار کئے بغیر بھی یہ قانون پس کر سکتی ہیں۔پاس ہوجانے کے بعد یہ قانون اگر نظریاتی کونسل کی نظر میں خلاف اسلام نکل آئے تو اس صورت میں صدر یا گورنر کو صرف اتنی زحمت کرنی ہوگی کہ اس قانون پر نظر ثانی کرل یں۔ملاحظہ فرمائیے نظر ثانی کر لیں!یعنی نظر ثانی کے بعد بھی اس خلاف اسلام قانون کابرقرار رہنا ٹھہر جائے تو اس کی پوری آزادی ہے۔اب بتائیے(1)227سے جو امید افزا بات چلی تھی وہ(4)230تک پہنچ کر کیا سے کیا ہوگئی!؟ تیسری بات یہ ہے کہ دستور میں جو(1)227کو لغو او ربے معنی کرنے کے جابجا انتظامات کئے گئے ہیں خود جمہوری اسلام پسند بھی اس سے ناواقف نہیں۔ورنہ جہاں ملک کی اعلی عدالتیں صدر مملکت تک کے خلاف آئین اقدامات کالعدم قرار دے دیتی ہیں وہاں ہمارے اسلام پسند بھی تو آئے روز پاس ہونے والے خلاف اسلام قوانین کو(1)227کا حوالہ دے کر چیلنج کر سکتے تھے کہ کتاب و سنت کی تعلیمات
Flag Counter