Maktaba Wahhabi

25 - 83
اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کے لئے دستوری طریق کار اپنائے! قانون سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ قانونی زبان میں کوئی چیز ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے ہاتھ سے لے لینا ایک آسان کام ہے۔آئیے دیکھتے ہیں دستور اپنی اس بڑھک کو کس انداز سے واپس لیتا ہے۔ 1۔آرٹیکل(c)203Bکی رو سے مندرجہ ذیل قوانین وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے ویسے ہی باہر ہیں۔لہذا ان مقدس صحیفوں کی طرف شرعی عدالت آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی: 1۔ آئین پاکستان(جو کہ مخلوق کے اختیارات کی مستند دستاویز ہے) 2۔ مسلم عائلی قوانین 3۔ عدالتی طریقہ ہائے کار 4۔ مالیاتی قوانین(جن میں سود،لاٹری اور پرائز بانڈ سب حلال ہیں) 5۔ ٹیکس و فیس قوانین،اور 6۔ بینکاری و بیمہ انشورنس کے طریق ہائے کار بتائیے شرعی عدالت کے پاس کیا بچا جسے غیر اسلامی قرار دے کر اس نظام کی کلمہ گوئی کا بھرم رکھ سکے؟یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے کہ میں کلمہ تو پڑھتا ہوں مگر فلاں فلاں شعبے میرے ہاں اللہ اور اس کے رسول کی شریعت سے مستثنیٰ ہونگے اور ان تمام شعبوں میں وہ غیر اللہ کی ہدایت پر چلنے کا مجاز ہوگا! 2۔ اس کے بعد بھی اگر نظام شرک کے مفادات پر زد پڑنے کی کوئی گنجائش رہ گئی ہوتو اس کا سد باب کرنے کیلئے آئین کہتا ہے کہ آرٹیکل(2)203Dکی Privisoاور آرٹیکل 203Fکی رو سے شرعی عدالت کا ہر فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جہاں وہ تبدیل بھی ہوسکتا ہے اور منسوخ بھی۔اس بات کے بے شمار عملی مظاہرے آئے روز دیکھنے میں آتے ہیں۔نواز شریف دور میں سود کے خلاف شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا واقعہ اب بھی اکثر لوگوں کو یاد ہوگا۔ بتائیے اسلام پسندوں کے ہاتھ آیا،تو کیا!؟
Flag Counter