Maktaba Wahhabi

51 - 83
طرح یہ نظام ایک اکائی ہے اسی طرح اس نظام کا ترجمان دستور بھی ایک اکائی ہے۔اس میں جس کا جو حصہ رکھ دیا گیا ہے اور اختیارات کی جو نسبت و تناسب بیان کر دی گئی ہے وہ اسے ایک کل ماننے کے بعد ہی سمجھ میں آ سکتی ہے۔کوئی عقلمند بھی اس کے ایک حصہ کو الگ کر کے اس کی تفسیر کرنے کی اجازت نہ دے گا،کجا یہ کہ آپ اسی کو معتبر مانیں اور باقی کو دل سے نہ مان کر جان چھڑا لیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔اب اگر کوئی صرف ہائیڈروجن کو پانی ماننے لگے تو آپ اس کا کیا بگاڑ لیں گے؟ کوئی اگر اس ضد پہ آ جائے کہ دوسرے جو بھی چاہیں مطلب لیتے رہیں مگر وہ سرمایہ داری نظام کو صرف ’’شخصی ملکیت‘‘ کے سنہری اصول کی بنا پر قبول کرتا ہے اور اس کے باقی امور سے متفق نہیں،کیمونزم کو ’’اجتماعی مفاد کی ترجیح‘‘ کے اصول کی بنا پر گلے لگاتا ہے اس کے باقی کفریہ نظریات کو ’’ذاتی طور‘‘ پر تسلیم نہیں کرتا،بدھ مت اس لئے اچھا ہے کہ اس میں رقت قلب اور خدا ترسی کے اسلام ایسے سبق ملتے ہیں اس کے غیر اسلامی عقائد سے وہ اتفاق نہیں کرتا،عیسائیت کو صرف عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان کی حد تک قبول کرتا ہے تثلیث کا وہ قائل نہیں … اور یوں دنیا بھر کے ادیان اور نظام ہائے باطل کی جمع تفریق کا عالمی فلسفہ پیش کر دے تو آپ اس کے لئے کیا علاج تجویز کریں گے؟ اور جب شرک کہتے ہیں اللہ کے ساتھ غیر اللہ کو کم یا زیادہ ملانے کو ہیں تو اس فلسفہ کے اطلاق کے بعد کونسا شرک رد کئے جانے کے قابل رہ جائے گا؟ شرک ’’مٹانے‘‘ کا یہ نسخہ اگر انبیاء کے ہاتھ لگتا تو ان کا کام حد درجہ آسان ہو جاتا!آپ دیکھتے نہیں کہ باطل نظام کے صرف مثبت یا اسلام سے مشترک ’’اسلامی پہلوؤں‘‘ کی نیت کر کے اسے قبول کرنے اور یوں اس میں شرکت کرنے کا یہ فلسفہ انتہائی ’’واقعیت پسندی‘‘ کے باوجود انبیاء کی دعوت کا صاف انکار ہے؟ کیا کوئی نبی ایسا بھی گزرا ہے جس کی قوم اللہ کو نہیں پوجتی تھی اور اس کا مختص حصہ موجودہ دور کی آئینی ضمانتوں سے کہیں زیادہ عقیدت کے ساتھ پیش نہیں کرتی تھی؟ پھر ان مثبت پہلوؤں کی نیت کر کے کیوں نہ انبیاء نے نظام وقت کی اقتدا اختیار کی اور منفی پہلوؤں کا مثبت انداز سے خاتمہ کرنے کی پرامن اور بتدریج جدوجہد کرتے
Flag Counter