Maktaba Wahhabi

54 - 83
اولاً: پارلیمنٹ کا سب کچھ کرنے میں آزاد ہونا اس کی رکنیت کے جواز کی نہیں حرمت کی دلیل ہے۔یہ پارلیمنٹ ایک طرف تو رب العالمین کی شریعت کو قانون کی سند دینے یا نہ دینے میں پوری طرح آزاد ہے مگر دوسری طرف کروڑوں انسانوں کے لئے ہر حال میں واجب اطاعت۔اب جو مجلس رب العالمین کی ہمسری کرتی ہو اس میں شمولیت کا خیال کسی مسلمان کے دل میں آجانا ہی حیرت کی بات ہے۔ ثانیاً: رہا یہ کہ دو تہائی اکثریت کے ذریعے نفاذ اسلام کا امکان ہونے کی بنا پر پارلیمنٹ طاغوت نہیں رہتی تو یہ اگر کوئی اصول ہے تو پھر دنیا کے کس ملک کی پارلیمنٹ طاغوت رہے گی؟ اگر آپ امریکی کانگریس میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں تو کیا وہاں اسلام نہ لے آئیں گے؟ مسئلہ تو دراصل ان خدائی اختیارات کا ہے جو اس وقت اسے فی الواقع حاصل ہیں۔رہے امکانات اور احتمالات تو اس بنیاد پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ ثالثاً: کسی شراب سازوں کی یونین میں اکثریت حاصل کر کے اگر آپ اس کے قوانین تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو کیا شراب سازوں کی مجلس میں شرکت بھی دین کا تقاضا ہو گی؟ ’’علماء‘‘ سے دریافت کیجئے،بعید نہیں کوئی دن یہ فتویٰ بھی نکل آئے! رابعاً: شریعت کا نفاذ دین میں مطلوب ضرور ہے مگر شرک کے راستے سے نہیں۔شرک سے بچنا اور طاغوت سے کفر کرنا شریعت کے نفاذ سے کہیں بڑا فرض ہے۔آج تک کسی نبی نے بھی شریعت کے نفاذ کی خاطر طاغوت کی ہم نشینی اختیار نہیں کی۔اس لئے شریعت کا نفاذ،شرک کرنے کے لئے ایک لمحہ حجت نہیں بن سکتا۔ خامساً: مقصد نیک ہو تو بھی اللہ کی نافرمانی کا ذریعہ اختیار کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ورنہ حج کرنے کے لئے سود لینا بھی جائز ہو جائے گا اور خیرات کرنے کے لئے رشوت ستانی بھی!The End
Flag Counter