Maktaba Wahhabi

58 - 83
رکھتی ہے جنہیں دو اونٹوں سے باندھ کر مخالف سمت میں چروانا قبول کر لینا ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مصلحت تھی؟ آخر کفار کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نرمی اختیار کر لینے کے سوا اور کیا مطالبہ تھا جس کے بدلے میں سمیہ رضی اللہ عنہا و یاسر رضی اللہ عنہ کی جان و مال ایسی مصلحتیں تو کیا بادشاہت بھی قدموں میں ڈھیر ہوتی تھی۔ووٹ دے کر بڑے کفر کا راستہ روکنے والے اور ایک ایک سییٹ کی خاطر ذلت کی خاک چھاننے والے اس حقیقت کو کیسے قبول کرتے ہوں گے کہ خاتم المرسلین ذرا نرم رویہ اختیار کرنے کے عوض جان بخشی یا چند سیٹیں نہیں پوری بادشاہت کی پیشکش ٹھکرانے پر بضد ہیں؟ ایک ایک دو دو سیٹوں کے بل پر دین کے پرچم گاڑنے والے کیا نہیں سوچتے کہ کیوں نہ بلال و صہیب رضی اللہ عنہما نے ماریں کھاتے ہوئے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ حضرت یہ قومی مفاد بھی ہے اور اسلامائزیش کا راستہ بھی آپ کیوں ہمیں مروانے پر ہی تلے ہوئے ہیں؟ مصالح و مفاسد کا تفقہ کوئی بلال رضی اللہ سے لے جو تپتی ریت پہ چیختے ہوئے کفار سے گویا ہیں ’’تمہیں جلانے ستانے کے لئے مجھے کوئی اس سے بھی سخت بات آتی ہو تو میں وہ کہنے سے بھی گریز نہ کروں‘‘ ایمانی عزت اور احساس برتری و بے نیازی جاہلیت کی خاک چھاننے سے کہاں نصیب ہوا کرتی ہے۔ (2) مصلحت کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مصالح مرسلہ میں آنی چاہیے یعنی نہ تو وہ ظاہر شریعت کی کسی نص سے متصادم ہو۔﴿لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ﴾(اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو) کا یہی مطلب ہے۔مثلاً سود کے مال کو صدقہ کرنے میں بظاہر مصلحت ہے مگر شریعت اسے مصلحت نہیں مانتی۔مصلحت کا متضاد مفسدت(فساد) ہے،اب اگر کوئی جاہل نصوص سے متعارض چیز کو مصلحت مانتا ہے تو نصوص کا مفسدت(فساد) ہونا خود بخود لازم آجائے گا معاذاللہ۔دیکھ لیجئے ایسا اعتقاد کتنی بڑی گمراہی کا موجب ہے۔پھر جب نصوص سے متعارض چیز کو مصلحت جاننا ظلم عظیم ہے تو عقیدہ توحید ہی سے متصادم امر کو مصلحت قرار دینے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ نظام اگر باطل ہے اور پارلیمنٹ اس کا
Flag Counter