Maktaba Wahhabi

70 - 83
امام نووی صحیح مسلم کی اس حدیث کاذکر کرنے کے بعد جس میں کعبہ پر چڑھائی کرنے والے لشکر کی تباہی کی پیشین گوئی ہے اور ساتھ یہ بھی کہ اس میں وہ لوگ بھی مارے جائیں گے جو ان کے جرم میں کسی طرح بھی شریک نہ ہونگے بلکہ صرف اس وقت انکے ساتھ اس جگہ موجود ہوں گے،فرماتے ہیں من کثر سواد قوم جری علیہ حکمہ فی ظاہر عقوبات الدنیا۔(شرح النووی لصحیح مسلم 18:8) ’’ اس میں اہل ظلم سے کوسوں دور رہنے اور دیگر باغیوں کی ہم نشینی سے خبردار رہنے کا حکم ہے تاکہ جب ان پر عذاب آئے تو آدمی محفوظ رہے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں ’’جو شخص کسی قوم کی کثرت اور رونق بڑھاتا ہے دنیا کی ظاہری عقوبات میں اس پر انہی کے حکم کا اطلاق ہوتا ہے‘‘(شرح نووی صحیح مسلم 18:7) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اسی ضمن میں اللہ تعالی کا اپنے رسول کو مسجد ضرار کے بارے میں وہ حکم آتا ہے لا تقم فیہ ابداً ’’کہ اے نبی!تم اس میں کھڑے تک نہ ہونا ‘‘ کیونکہ وہ عذاب کی جگہوں میں آتی تھی۔جس پر کہ ’’علی شفا جرف ھار فانھار بہ فی نار جہنم ‘‘ کے لفظ دلالت کرتے ہیں۔ اب جب شریعت نے ایسی جگہ جانے تک میں کفار کے ساتھ شرکت سے منع فرمایا ہے جہاں ان پر عذاب نازل ہوچکا ہو تو ان کے ان اعمال ہی میں شرکت کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے کرنے کی بنا پر وہ آئندہ عذاب کے مستحق ہیں ؟اگر یہ کہا جائے کہ یہ عمل جو وہ کرتے ہیں اس میں ان کی مشابہت مطلوب نہ ہوتو وہ حرام نہ ہوگا اور ہمارا مقصد ان سے تشبیہ نہیں،پھر اسی طرح اگر ان کے پیچھے چلنا مقصود نہ ہوتو صرف اس جگہ چلے جانے میں کوئی معصیت نہیں جبکہ ہمارا
Flag Counter