Maktaba Wahhabi

31 - 71
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فرشتے اس کی روح قبض کرنے آئے تو پوچھا:کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا:میں نہیں جانتا،فرشتے کہتے ہیں کہ سوچو غور کرو،اس نے بتایا کہ صرف اس قدر جانتا ہوں کہ دنیا میں لوگوں سے خرید وفروخت اور ادھاری کاروبار کیا کرتا تھا،اور ان کو اس طرح سہولت دیا کرتا کہ خوش حال شخص کو مہلت دیا کرتا اور تنگ دست سے چشم پوشی ومعافی کا برتاؤ کیا کرتا،اس حسن سلوک کے طفیل اللہ نے اس کو معاف کردیا اور جنت میں داخل کیا۔‘‘[1] ایک روایت میں یوں ہے کہ ’’اس مالدار نے کہا:میں تنگ دست قرض دار کو مہلت دیتا،اور قرض کی ادائیگی کے وقت اس کے سکہ یا نقد رقم میں کچھ نقص ہوتا تو چشم پوشی اور درگذر سے کام لیتا‘‘ ’’عبداللہ بن ابی قتادہ کا بیان ہے کہ ان کے والد ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قرض دار سے رقم کا مطالبہ کیا،تو وہ روپوش ہوگیا،پھر ایک روز اس کو پالیا،تو وہ کہنے لگا کہ میں غریب نادار ہوں،ابو قتادہ نے کہا:اللہ کی قسم؟ اس نے کہا اللہ کی قسم،ابو قتادہ نے کہا(ایسی حالت ہے تو کوئی بات نہیں)میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے،آپ فرمارہے تھے: ’’جسے یہ بات خوش لگے کہ اللہ تعالیٰ روز قیامت کی مشقتوں سے اس کو نجات دے،تو غریب ونادار کو ڈھیل دے،یا قرض کی رقم پوری یا کم معاف کردے۔‘‘[2] امام نووی ان حدیثوں کے مفاد سے متعلق لکھتے ہیں کہ نیکی کے کسی کام کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے،ممکن ہے کہ معمولی سا نیک عمل،سعادت ورحمت کا سبب ہو۔
Flag Counter