Maktaba Wahhabi

136 - 194
کوئی دلیل آ جائے بلکہ اہل ایمان کے لیے جو میسر ہو رکعات پڑھے چاہے سات رکعات یا نو رکعات یا گیارہ اور چاہے تو تیرہ رکعات یا اس سے بھی زائد اور کم۔ بعض صحابہ جیسے عثمان بن عفان ،تمیم داری اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے صحیح روایت ہے کہ انہوں نے صرف ایک رکعت کا قیام کیا۔[1] پس رکعات کی تعداد میں وسعت ہے، تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کی ہیں جس نے شریعت میں آسانی رکھی ہے۔ صحابہ سلف نے اپنے آقا و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور راتیں بیداری کی حالت میں تلاوت قرآن کے ساتھ گزاریں، آپ کی حیات طیبہ میں بھی اور وفات حسرت آیات کے بعد بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’میں اشعری قبیلہ کے اپنے ان رفقاء کی آواز کو پہنچانتا ہوں جن کی راتیں تلاوت میں گزرتی ہیں،ان کے گھروں کا بھی علم ہے جن سے رات قرآن کی آواز آتی ہے۔‘‘[2] اس میں آپ کی طرف سے ان کی تعریف ہے ۔ سو قیام رمضان یا صلاۃ تراویح ، ترویحہ کی جمع ہے اور وہ ایک مرتبہ راحت کرنے کو کہتے ہیں۔ تراویح کو اسی لیے یہ نام دیا گیا ہے کہ جب وہ رمضان کی راتوں میں قیام کے لیے جمع ہوتے تو ہر دو رکعتوں کے بعد آرام کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد میں ادا کرنے کو سنت قرار دیا ہے۔ صحیح بخاری میں صلاۃ التراویح کے ابواب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نصف لیل کو ایک رات مسجد میں تشریف لائے اور نماز پڑھی تو (کچھ) لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پس لوگ یہ بات کرنے لگے تو (اگلے دن) بہت سے لوگ جمع ہو گئے تو انہوں نے بھی آپ کے ساتھ نمازپڑھی ، یہ بات عام ہو ئی تو تیسری رات اور زیادہ جمع ہوگئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور نماز پڑھائی چوتھی رات مسجد تنگ پڑ گئی تو آپ صبح کی نماز کے لیے نکلے ، جب فجر کی نماز پڑھائی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا: اما بعد: ’’ بیشک تم لوگوں کا یہ حال مجھ سے مخفی نہیں لیکن میں نے ڈر محسوس کیا کہ کہیں یہ
Flag Counter