Maktaba Wahhabi

137 - 194
نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے پھر تم اس کی طاقت نہ رکھو گے‘‘پس معاملہ اسی طرح رہا ( ترک جماعت تراویح) یعنی لوگ الگ الگ پڑھتے رہے حتی کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور لوگوں کو پھر سے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر جمع کر دیا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں رمضان کی ایک رات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تولوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے تھے کوئی اکیلا تو کوئی چند لوگوں کو نماز پڑھا رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا خیال ہے اگر میں ان کو ایک امام کے پیچھے جمع کردوں تو زیادہ بہتر ہے اور پھر عملاً ان کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے جمع کر دیا ، پھر اگلی رات میں ان کے ساتھ مسجد میں آیا تو لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، یہ دیکھ کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ اچھا طریقہ ہے جو اس سے سوئے رہتے ہیں وہ قیام کرنے والوں سے افضل ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی جو پچھلی رات پڑھے وہ پہلی رات والوں سے افضل ہے ۔[1] عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک اور تقریری حدیث کے ذریعے اخذ کی کیونکہ جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند راتیں قیام کیاتھا آپ نے ان کا انکار نہیں فرمایا اور بقیہ راتوں میں نہ پڑھا نے کا اور ان کی طرف نہ نکلنے کا سبب واضح کر دیا کہ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں تم پر یہ فرض نہ کر دی جائے اور جو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا (نعم البدعۃ ہذہ) تو بدعت لغت میں کہتے ہیں ایسی چیز کی ایجاد جس کی پہلے دلیل نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہاں اس کلمہ کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ ان کا زمانہ خلافت ( ابتدائی دور) ابو بکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ دور بھی اس کے بغیر گزرا مساجد میں اس کی جماعت نہ ہوتی تھی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی دلیل ملتی ہے۔ پس آپ نے ان الفاظ کی تعبیر میں قدرے توسع سے کام لیا اور یہ فصیح عربی اسلوب ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ گہری سوچ درجہ قبولیت کو یوں پہنچی کہ کئی زمانے بیت جانے کے باوجود مسلمانوں کی مساجد میں اس پر عمل جاری و ساری ہے ’’وَلِلّٰہِ الْحَمْدُوَالْمِنَّۃُ‘‘ پس
Flag Counter