Maktaba Wahhabi

57 - 194
یہ حدیث ضعیف ہے۔[1] اور اگر صحیح بھی ہو تو یہ تعلیم قرآن پر اجرت کی ممانعت کی دلیل نہیں جبکہ ابن عباس اور ا بو سعید رضی اللہ عنہما کی روایت جواز پہ دلالت کرتی ہے۔ ان میں یوں جمع کیا جائے گا کہ اہل صفہ فقراءتھے اور لوگوں کے صدقہ پر گزر بسر کرتے تھے ان کو مال دینا مستحب اور ان سے لینا مکروہ ہے تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ انہیں حصول ثواب کی نیت سے صرف رضائے الٰہی کے لیے تعلیم دیتے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کے بدلہ میں تعلیم دینے کو باطل قرار دیا۔ اہل علم کی ایک جماعت اس مسئلہ میں ان احادیث کے درمیان یوں جمع کرتی ہے، فرماتے ہیں: تعلیم ِقرآن پہ اجرت کے مختلف احوال ہیں: جب مسلمانوں میں کئی لوگ اس کام کو کرنے والے ہوں تواجرت جائز ہے کیونکہ تب یہ فرض عین نہیں اور جب ایسی حالت یا ایسی جگہ میں ہو جہاں اس کے علاوہ کوئی اور نہ ہو تو اجرت ناجائز ہے۔ [2] لیکن اس مسئلہ میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس صورت میں شرط کے ساتھ ناجائز ہے اگر اس کو بغیر شرط کے وہ کچھ دیں تو بغیر لالچ کے اس کو لینا جائز ہے ۔ جیسا کہ حسن بصری ، ابن سیرین اور شعبی کا خیال ہے۔ پھر ایک صورت یہ بھی ہے کہ اگر اس کی اجرت کا بندوبست کسی وقف (اہل ِخیر، ٹرسٹ) وغیرہ یا بیت المال سے ہو تو اس کو لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، مسلمانوں کے بہت سے ممالک میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ انہیں قرآن کی تعلیم کے لیے مستقل افراد چاہیے۔
Flag Counter