Maktaba Wahhabi

60 - 194
اُنْزِلَ بِلَحْنِ قُرَیْشٍ‘‘ ’’ بیشک یہ قرآن قریش کی لغت پہ نازل ہوا ہے۔ ‘‘[1] لفظ ’’لحن‘‘ سُر لگانے ، گانے ، آواز کو خوبصورتی سے لوٹانے ، قراءت، اشعار اور گانے میں ترنم پیدا کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اسی کے متعلق حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے: قرآن کو عربوں کے لہجے اور آوازوں میں پڑھو۔[2] اس کے علاوہ بھی لحن کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس باب میں مقصود قراءت میں غلطی سے بچنا ہے صحابہ کرام کی عادت شریفہ تھی کہ وہ قرآن کو فصاحت کے ساتھ پڑھنے پہ بہت حریص تھے اور جس طرح یہ نازل ہوا اسی کیفیت میں قرا ت کے متمنی تھے کیونکہ اعراب قرآن صرف حرکات کو نہیں بلکہ لہجوں کو بھی شامل ہے کیونکہ یہ لغت عرب ہے تو ان کے مختلف لہجات لسانی کابھی اعتبار ہے۔ ام درداء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں قرآن کو ایسے ہی پڑھنا پسند کرتی ہوں جیسے وہ نازل ہوا ہے۔ [3] ان کا مقصد اعراب قرآن ہے۔ ابو جعفر سے مروی ہے انھوں نے فرمایا ، آدمی کا لحن کو سیکھنا ،اس کی سمجھداری کی علامت ہے یعنی لغت اور لہجہ کو سیکھنا تا کہ قرآن پڑھتے ہوئے زبان سیدھی رہے۔ ان کی یہ عادت مبارکہ ان کے متبع سنت ہونے کی وجہ سے ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زائد حدیثوں میں اس کا حکم مروی ہے۔ انہی روایات میں سے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن مجید کو (اعراب) فصاحت سے پڑھو اور اس کے غرائب (دشوار) کو تلاش کرو۔ ‘‘[4] ابو بریدۃ رضی اللہ عنہ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک شخص سے بیان کرتے ہیں انھوں نے فرمایا اعراب کے ساتھ میں ایک ہی آیت پڑھ لوں مجھے بغیر اعراب کے اتنی اتنی آیات پڑھنے سے
Flag Counter