Maktaba Wahhabi

63 - 194
قُلتُ:… اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بھی یہی معنی ہے: ﴿وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا﴾ (الاسراء: 106) ’’ اور قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے اتار ا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا۔‘‘ یعنی لوگوں کو پہنچائیے اور ان پر بہ مہلت تلاوت کیجئے۔ [1] ترتیل کی یہ تفسیر سلف کے طریقہ پہ ایک معنوی لحاظ سے بھی ہے اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ترتیل صرف ٹھہرٹھہرکر پڑھنے کا نام ہے بلکہ اس کا مطلب وضاحت ، فصاحت اور حسن ہے تاکہ قرآن مجید کو بدرجہ اکمل پڑھاجائے جس سے اس کا حسن اور رونق ظاہر ہو اور یہ خوبی تجوید کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ تجوید کے بغیر آہستگی ، ٹھہراؤ اور جماؤ جس قدر بھی ہو وہ حسن قرآن کو ظاہر نہیں کر سکتا بلکہ اس کیکمزوریوں و غلطیوں کی وجہ سے محاسن قرآن مخفی رہ جاتا ہے۔ اس لیے بعض سلف صالحین ترتیل کا معنی تجوید کرتے ہیں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ترتیل ،تجوید حروف اور وقوف کی معرفت کا نام ہے۔ [2] جو شخص مراتب تلاوت میں تحقیق پر عمل کرتا ہے وہ اس کو زیادہ حاصل کر سکتا ہے۔ پھر اس کے بعد توسط میں جس کو تدویر کہا جاتا ہے۔ احکام کو ضبط کرنے اور قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے درجات ترتیل میں سے یہ دونوں درجے (تحقیق ، تدویر) بہت احسن ہیں اور اس شخص کے لیے بھی جو معانی اور تفسیرمیں غور و فکر کرنا چاہتا ہے۔ البتہ حدر میں احکام کا ضبط سوائے ماہرین و متقنین کے کسی کو حاصل نہیں ہوتا ۔ تحقیق ’’حقق الشي تحقیقاً‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جب یقین کو پہنچے اور کسی چیز کو
Flag Counter