Maktaba Wahhabi

86 - 194
ترنم کے ساتھ پڑھنا یہ مسئلہ علماء کے ہاں مشہور ہے۔ لحن کے لغوی معانی میں سے ، خوشی سے جھومنا اور گانا ہے لیکن یہاں مراد اس سے ایک زائد چیز ہے ، ترنم کے وقت آوازوں کی مختلف صورتیں اور کیفیات ہوتی ہیں، ان کو انغام اور الحان کہا جاتا ہے ان میں سے ہر قسم دوسری سے اپنے مخصوص نام کے ساتھ ممتاز ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر اس کو قانون نغم کہا جاتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر[1] اور شہاب قسطلانی[2] نے ذکر کیا ہے۔ یہ قانون صرف آوازوں کی اقسام اور نغمات و لہجات کو مختلف شکل میں مرتب کرنے کے لیے ہے جیسا کہ قانون شعر میں (عرض ) کا حال ہے کہ اس کے ساتھ اوزان شعر کو مرتب کیا جاتاہے۔ پس جس طرح قانون شعر اہلِ فسق و جنون کے ساتھ خاص نہیں اگرچہ اکثر و بیشتر وہی اس کا استعمال کرتے ہیں ایسے ہی قانون ِ نغم اصل موسیقی اور شیطانی گلوکاروں کے ساتھ بھی خاص نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام زبور کو ستر لہجوں کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ ایسی قراءت کرتے کہ بخار میں مبتلا بھی اس سے جھوم اٹھتا اور جب وہ خود رونے لگتے تو بروبحر کی سواریاں ان کے لیے خاموش ہو جاتیں اور غور سے سماعت کرکے رونے لگ جاتیں۔[3] ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول’’ ستر لہجات ‘‘ سے مراد یہ تھا کہ ہر لہجہ و ترنم دوسرے سے جدا ہوتا اور یہ نغمات کی ایک شکل اور آوازوں کی ایک قسم ہے اور اسی کا ہم ارادہ رکھتے ہیں۔ قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے والا اگر ترنم سے پڑھے تو کیا اس کے لیے جائز
Flag Counter