Maktaba Wahhabi

110 - 460
شخصیت کے دبائو سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں۔اسی کو وہ شفاعت کہتے ہیں۔یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہ ہی تھا جو آج کل کے جاہلوں کا ہے۔ 2۔سورۃ البقرۃ (آیت:۲۶۷) میں ارشادِ الٰہی ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ } ’’مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمھارے لیے زمین سے نکالتے ہیں،اُن میں سے (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرو اور بُری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ اگر وہ چیزیں تمھیں دی جائیں تو بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کر لو،اُن کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ اللہ بے پروا اور قابل ستایش ہے۔‘‘ صدقے کی قبولیت کے لیے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو،چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت ) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے،نیز یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو۔خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں،اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔دوسرے خبیث کے معنیٰ ردی اور نکمی چیز کے ہیں،وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں۔ 32۔تجارت حلال اور سود حرام: 1۔سورۃ البقرۃ (آیت:۲۷۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter