Maktaba Wahhabi

220 - 460
ناشکری کی۔‘‘ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے۔ایک روایت میں ہے کہ قرآن مراد ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں،وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو۔محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں:جو نعمت کرامت و نبوت کی تمھیں ملی ہے،اُسے بیان کرو،اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے والوں میں سے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان ہوتا،پوشیدگی سے دعوت دینی شروع کی۔[1] 214۔حکمت وخیر خواہی کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور صبر: سورۃ النحل (آیت:۱۲۵ تا ۱۲۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ . وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ . وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ . اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ} ’’(اے پیغمبر!) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو،جو اس کے راستے سے بھٹک گیا،تمھارا رب اُسے بھی خوب جانتا ہے اور جو راستے پر چلنے والے ہیں اُن سے بھی خوب واقف ہے اور اگر تم اُن کو
Flag Counter