Maktaba Wahhabi

225 - 460
جواب دوں گا،لیکن اس کے بعد ۱۵ دن تک جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نہیں آئے۔پھر جب آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان شاء اللہ کہنے کا حکم دیا۔آیت میں ’’غد‘‘ سے مراد مستقبل ہے،یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو ان شاء اللہ ضرور کہا کرو،کیوں کہ انسان کو تو پتا نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے،اس کی توفیق بھی اسے ا للہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں۔ اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت ان شاء اللہ کہنا بھول جائو،تو جس وقت یاد آجائے ان شاء اللہ کہہ لیا کرو،یا پھر رب کو یاد کرنے کا مطلب اس کی تسبیح و تحمید اور اس سے استغفار کرنا ہے۔ 220۔نماز وعبادت اور ذکرِ الٰہی: سورت طٰہٰ (آیت:۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَافَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ} ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔‘‘ عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا،حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی،تاکہ اس کی مزید اہمیت واضح ہو جائے۔ {لِذِکْرِیْ}کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے،اس لیے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آجائوں نماز پڑھ،یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔جس طرح کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
Flag Counter