Maktaba Wahhabi

235 - 265
’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں معاف فرمائے، وہ ارحم الراحمین ہے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں گلے سے لگایا اور پھر دونوں مسلمان ہو گئے۔ عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ اور غزوۂ حنین میں موجود تھے۔ غزوۂ حنین میں جب مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے اور شدید تیراندازی ہوئی تو مسلمان میدانِ جنگ سے بھاگنے لگے۔ مگر عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے۔ دشمن کے شہسواروں کو پچھاڑتے اور ان کی طرف مسلسل آگے بڑھتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کی طرف بڑھے اور ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ مسلمانوں نے 75 دن محاصرہ جاری رکھا مگر قلعے فتح نہیں ہوئے۔ مسلمانوں نے شدید حملہ کیا تا کہ قلعے کی دیوار میں نقب لگا سکیں اور اس کے ذریعے مسلمان قلعے میں داخل ہو سکیں۔ مسلمان دبابہ میں بیٹھ کر قلعے کی دیوار کے پاس پہنچے تو بنو ثقیف نے ان پر لوہے کے گرم گرم ٹکڑے پھینکے، دبابہ جل گیا، مسلمان اس کے نیچے سے نکلے تو ثقیف والوں نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی جس سے بہت سے مسلمان زخمی اور شہید ہوئے۔ عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی اسی موقع پر شہادت سے سرفراز ہوئے۔ عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا لمبا عرصہ اسلام سے نفرت اور بغض و عناد میں گزارا، مگر جب اللہ نے بھلائی کا اِرادہ فرمایا تو آخری عمر میں ان کے روح و بدن کو کفر و شرک کی گندگی سے صاف کیا، ان کے دل کو دعوتِ اسلام کی قبولیت کے لیے کھول دیا، عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ مکہ سے مہاجر کی صورت میں مدینہ چلے گئے، توحید کی
Flag Counter