Maktaba Wahhabi

114 - 222
’’ابوقیس تمھیں نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: آگاہ رہو! میری وصیتوں پر حتی المقدور عمل کی کوشش کرو۔ میں تمھیں اللہ کی ذات کے متعلق وصیت کرتا ہوں، نیز نیکی اور تقوی کے کاموں کی وصیت کرتا ہوں اور تم اپنی عزتوں کی حفاظت کرو۔ اللہ اور نیکی کے کاموں کو اولیت دو۔ اگر تمھاری قوم میں سے تمھارا کوئی سردار ہو تو اس سے حسد نہ کرو اور اگر ریاست کی باگ ڈور تمھارے ہاتھ میں ہے تو تم عدل سے کام لو۔ اگر تمھاری قوم پر کوئی آفت آن پڑے تو ان کے تعاون کے لیے اپنا آپ پیش کردو۔ اگر تمھارے پاس قرضوں میں جکڑا پریشان حال شخص آجائے تو اس کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور اس کا تعاون کرنا لیکن اس کے مقابلے میں کوئی تم پر حادثات و مصائب میں کچھ تاوان لگائے تو اسے مل کر پورا کرو۔ اگر تم کنگال اور تنگ دست ہو جاؤ تو سوال سے بچنا اور مال کی فراوانی ہے تو زائد مال خرچ کرتے رہنا۔‘‘ [1] حضرت ابوقیس صرمہ بن قیس رضی اللہ عنہ اسلام لانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے اتنے دانا، عقل مند اور حکیم تھے تو جب انھوں نے اسلام قبول کرلیا اور دل نورِ ایمان سے منور ہوگیا تو ان کی حکمت و دانائی کے کیا ہی کہنے تھے؟! اسلام قبول کرنے کے بعد مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ ان کے مناظرے اور مکالمے ہوئے یا نہیں۔ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ملتا، حالانکہ انھی یہودیوں نے خبر دی تھی کہ عنقریب ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے تو خود انھی یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کیا۔ اسی طرح منافقین کے گروہ سے صرمہ رضی اللہ عنہ کا کیا رویہ رہا، اس کا بھی علم نہیں ہوسکا
Flag Counter