Maktaba Wahhabi

121 - 728
المسجد کي یوسع المسجد، ھل ھو جائز أم لا؟ و مسجد المدینۃ المنورۃ ھل بني علی قبور المشرکین أم لا؟ وأین قبر إسماعیل علیہ السلام ھل ھو تحت المیزاب متصل الحطیم أم لا؟ وھل یصلي الناس علٰی قبرہ؟ وھل یجوز نبش القبور لغرض شرعي أم لا؟ بینوا بالدلیل تؤجروا بالأجر الجزیل۔ [سوال 1: اے علماے کرام! ایسی مسجد کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے، جو محلے والوں کے لیے تنگ ہوگئی ہے اور مسجد کی مشرقی جانب اس کے صحن سے متصل ہی چار پرانی قبریں ہیں ، پس مسجد کے ہمسائے چاہتے ہیں کہ قبروں کو مسجد میں داخل کر دیں ، تاکہ مسجد وسیع ہوجائے؟ کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟ سوال 2: کیا مدینہ منورہ کی مسجد (مسجد نبوی) مشرکوں کی قبروں پر بنائی گئی تھی یا نہیں ؟ سوال 3 : اسماعیل علیہ السلام کی قبر کہاں ہیں ؟ کیا وہ حطیم سے متصل پرنالے کے نیچے ہے یا نہیں ؟ کیا لوگ ان کی قبر پر نماز پڑھتے ہیں ؟ سوال 4: کیا کسی دینی ضرورت کے پیشِ نظر قبروں کو اکھاڑنا جائز ہے یا نہیں ؟ دلیل کے ساتھ بیان کریں اور الله تعالیٰ سے اجر جزیل کے حق دار بنیں ] جواب:ھو جائز، إن کانت القبور المذکورۃ قبور المشرکین، لکن بعد نبش تلک القبور ورمي عظامھم منھا، وغیر جائز إن کانت القبور المذکورۃ قبور المسلمین، ففي صحیح البخاري: باب ھل ینبش قبور مشرکي الجاھلیۃ ویتخذ مکانھا مساجد؟ لقول النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لعن اللّٰه الیھود اتخذوا قبور أنبیاء،ھم مساجد )) [1] وفي فتح الباري: وجہ التعلیل إن الوعید علٰی ذلک یتناول من اتخذ قبور أنبیاء ھم مساجد بأن تنبش وترمٰی عظامھم، فھذا یختص بالأنبیاء، یلتحق بھم أتباعھم، وأما الکفرۃ فإنہ لا حرج في نبش قبورھم إذ لا حرج في إھانتھم۔ انتھی، [2]و اللّٰه تعالیٰ أعلم نعم مسجد المدینۃ المنورۃ قد بني علی قبور المشرکین، لکن بعد نبشھا ورمي عظامھم منھا، ففي صحیح البخاري مع فتح الباري: قال أنس: فکان فیہ (أي في الحائط الذي بني في مکانہ المسجد) ما أقول لکم، قبور المشرکین، وفیہ خرب، وفیہ نخل، فأمر النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بقبور المشرکین فنبشت، ثم بالخرب فسویت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلۃ المسجد، وجعلوا عضادتیہ
Flag Counter