Maktaba Wahhabi

122 - 728
الحجارۃ۔ في الحدیث جواز الصلاۃ في مقابر المشرکین بعد نبشھا، وإخراج ما فیھا، وجاز بناء المسجد في أماکنھا۔ [1] و اللّٰه تعالیٰ أعلم قد روي أن قبر إسماعیل علیہ السلام وقبر أمہ ھاجر کلیھما في الحجر، بل روي أن ما بین المقام إلی الرکن إلی بئر زمزم إلی الحجر قبر سبعۃ وسبعین نبیا، بل روي أنہ قد مات بمکۃ نوح وھود وصالح وشعیب، وقبورھم بین زمزم والحجر، ذکر ذلک کلہ العلامۃ السیوطي في الدر المنثور، [2] لکن لم یصح شيء من ذلک۔ [3] و اللّٰه تعالیٰ أعلم نعم، یجوز ذلک، إذا کانت قبور المشرکین، کما فصل في جواب السؤال الأول۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم 1۔[ اگر مذکورہ بالا قبریں مشرکوں کی ہیں تو ان قبروں کو اکھاڑنے اور ان سے مشرکوں کی ہڈیاں نکالنے کے بعد وہاں مسجد بنانا جائز ہے، لیکن اگر وہ مسلمانوں کی قبریں ہیں تو پھر یہ عمل ناجائز ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں باب ہے کہ کیا مشرکینِ جاہلیت کی قبور کو اکھاڑنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: الله یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ فتح الباری میں ہے کہ اس کی و جہ یہ ہے کہ یہ وعید ان کو شامل ہے جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا کہ ان کو اکھاڑ کر اور ان کی ہڈیوں کو نکال کر انھیں پھینک دیا۔ یہ انبیا کے ساتھ خاص ہے اور ان کے پیرو کاروں کی قبروں کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن کفار کی قبروں کو اکھاڑنے میں کوئی گناہ نہیں ، کیونکہ ان کی اہانت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ 2۔ ہاں ، مسجد نبوی مشرکین کی قبور پر بنائی گئی تھی، لیکن ان کو اکھاڑ کر وہاں سے ان کی ہڈیاں نکال دی گئی تھیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پس اس میں (جس باغ والی جگہ پر مسجد بنائی گئی تھی) وہ کچھ تھا، جو میں تمھیں بتانے لگا ہوں : مشرکین کی قبریں ، کھنڈر اور کھجوروں کے درخت۔ پس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کے متعلق حکم دیا تو انھیں اکھیڑ دیا گیا، کھنڈر برابر کر دیے گئے، کھجوریں کاٹ دی گئیں اور ان کے تنوں کو قبلہ رخ قطار سے رکھ دیا گیا اور دروازے کے دونوں کنارے پتھروں سے چنے گئے۔ اس حدیث سے مشرکین کی قبریں اُکھاڑنے اور ان کی ہڈیاں نکالنے کے بعد وہاں نماز پڑھنا اور اس مقام پر مسجد بنانا جائز معلوم ہوتا ہے۔ 3۔ مروی ہے کہ اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ دونوں کی قبر حطیم میں ہے، بلکہ یہ بھی مروی ہے کہ مقامِ
Flag Counter