Maktaba Wahhabi

144 - 728
تمھارے ساتھی جس طرح کہتے ہیں ، اس پر عمل کرنے سے تم کو کون سی رکاوٹ ہے اور ہر رکعت میں اس سورت کو ضروری قرار دے لینے کا سبب کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حضور! میں اس سورت سے محبت رکھتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سورت کی محبت تمھیں جنت میں لے جائے گی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل پر سکوت فرمایا، بلکہ تحسین فرمائی۔ ایسی احادیث کو تقریری کہا گیا ہے)] جواب5۔ یہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔ بخاری شریف پارہ سوم (ص: ۴۳۶ مطبوعہ انصاری دہلی) میں ہے: حدثنا عبید اللّٰه بن مسلمۃ عن مالک عن نعیم بن عبد اللّٰه المجمر عن علي بن یحییٰ بن خلاد الزرقي عن أبیہ عن رفاعۃ بن رافع قال: کنا یوما نصلي وراء النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فلما رفع رأسہ من الرکعۃ قال: (( سمع اللّٰه لمن حمدہ )) قال رجل وراء ہ: ربنا ولک الحمد، حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ۔ فلما انصرف قال: (( من المتکلم؟ )) قال: أنا۔ قال: (( رأیت بضعۃ وثلاثین ملکا یبتدرونھا، أیھم یکتبھا أول )) [1] [ہم سے عبد الله بن مسلمہ نے امام مالک سے بیان کیا، انھوں نے نعیم بن عبد الله مجمر سے بیان کیا، انھوں نے علی بن یحییٰ خلاد سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے رفاعہ بن رافع زرقی سے، انھوں نے کہا: ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اُٹھاتے تو ’’سمع اللّٰه لمن حمدہ‘‘ کہتے، ایک شخص نے پیچھے سے کہا: ’’ربنا ولک الحمد، حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کس نے یہ کلمات کہے ہیں ؟ اس نے شخص نے جواب دیا کہ میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ ان کلمات کے لکھنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے تھے] اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس نے بآواز بلند ’’ربنا ولک والحمد۔۔۔ الخ‘‘ کہا تھا، جس کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں نے بھی سنا اور اس سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا، بلکہ یہ فرمایا کہ میں نے تیس اور کئی فرشتوں کو دیکھا کہ جلدی کر رہے ہیں کہ ہم پہلے لکھیں ۔ جواب6۔ جماعت میں ایک مصلی [نمازی] کے پیر کی خنصر دوسرے مصلی [نمازی] کے خنصر سے اس لیے ملی رہتی ہے کہ حدیث میں صف کے ٹھیک رکھنے اور درمیان میں کشادگی نہ رکھنے کے بارے میں بہت تاکید آئی ہے، اس لیے قدم کو قدم سے خوب ملا کر رکھنا چاہیے، تاکہ صف ٹھیک ہو اور کشادگی باقی نہ رہی اور جب قدم سے قدم ملے گا تو خنصر سے خنصر ضرور ملے گی۔ بخاری شریف پارہ سوم (ص: ۴۰۰ مطبوعہ انصاری دہلی) میں ہے:
Flag Counter