Maktaba Wahhabi

336 - 728
والدین کے لیے غلام آزاد کرے تو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے، جیسا کہ بخاری میں سعد کی حدیث سے ثابت ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے نماز پڑھے یا روزہ رکھے، سو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے، اس واسطے کہ دارقطنی میں ہے کہ ایک مرد نے کہا: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ تھے، ان کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی و احسان کرتا تھا، پس ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیونکر نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا: نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی روزہ رکھ اور صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں مر گئی اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتا اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا اور اس کی طرف سے تو ادا کرتی تو ادا ہو جاتا یا نہیں ؟ اس نے کہا: ہاں ، ادا ہوجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ میری ماں کے ذمے ایک مہینے کے روزے ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ اور غیر اولاد کے روزہ کا بھی ثواب میت کو پہنچتا ہے، اس واسطے کہ حدیث متفق علیہ میں آیا ہے کہ جو شخص مر جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے اور سورت یٰسین کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے، اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی، اس واسطے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اپنے مُردوں پر سورت یٰسین پڑھو اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے، اولاد دعا کرے یا کوئی اور، اور جو کارِ خیر اولاد اپنے والدین کے لیے کرے سب کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے، اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی سے ہے۔ جب علامہ شوکانی اور محمد بن اسماعیل امیر کی تحقیق ایصالِ ثواب قراء تِ قرآن و عباداتِ بدنیہ کے متعلق سن چکے تو اب آخر میں علامہ ابن النحوی کی تحقیق بھی سن لینا، خالی از فائدہ نہیں ۔ آپ شرح المنہاج میں فرماتے ہیں : ’’لا یصل إلیٰ المیت عندنا ثواب القراء ۃ علیٰ المشھور والمختار الوصول، إذا سأل اللّٰه إیصال ثواب قراء۔تہ، وینبغي الجزم بہ، لأنہ دعاء فإذا جاز الدعاء للمیت بما لیس للداعي فلأن یجوز بما ھو لہ أولیٰ ویبقی الأمر فیہ موقوفاً علیٰ استجابۃ الدعا، وھذا المعنی لا یختص بالقراء۔ۃ، بل یجري علیٰ سائر الأعمال، والظاہر أن الدعاء متفق علیہ، أنہ ینفع المیت والحي القریب والبعید بوصیۃ وغیرھا وعلیٰ ذلک أحادیث کثیرۃ، بل کان أفضل أن یدعو لأخیہ بظھر الغیب‘‘ انتھی، ذکرہ في نیل الأوطار۔[1] یعنی ہمارے نزدیک مشہور قول پر قراء تِ قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے، جبکہ الله تعالیٰ سے قراء تِ قرآن کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے (یعنی قرآن پڑھ کر دعا کرے اور یہ
Flag Counter