Maktaba Wahhabi

364 - 728
ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے نکالی ہے۔ جس کو کوئی زمین عاریتاً دی گئی یا اسے الاٹ کر دی گئی یا زمین اس کی نگرانی میں دے دی گئی تو اگر وہ اس میں کاشتکاری کرے تو اس کے ذمے عشر ہو گا اور اگر وہ اسے کرائے پر دے دے تو کرائے پر لینے والے کے ذمے عشر ہو گا اور اگر وہ بٹائی پر کاشتکاری کے لیے کسی کو دے تو عشر ان دونوں کے ذمے ہو گا۔ ان ائمہ کی دلیل یہ ہے کہ عشر کھیتی باڑی کا حق ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک یہ موقف ہے کہ عشر اور خراج جمع ہوں گے، کیونکہ عشر پیداوار پر ہے اور اس کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکات کے مستحق ہیں اور خراج زمین پر ہے اور اس کے مستحق مال ہی کے مستحق لوگ ہیں ۔ لہٰذا وہ دو مختلف سببوں کے ساتھ دو قسم کے مستحقوں کے حق ہیں ، پس وہ دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح اگر وہ کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کے ذمے دیت ہو گی جو مقتول کے ورثا کو دی جائے گا اور اس کے ذمے کفارہ بھی ہو گا جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسی طرح اگر وہ احرام میں کسی مملوکہ شکار کو قتل کر دے تو اسے اس جانور کے مالک کو اس کے بدلے میں اس جیسا جانور دینا ہو گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر جزا و بدلہ بھی ہو گا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عشر زمین کا حق ہے پس اس زمین پر دو حق جمع نہیں ہوں گے، جمہور نے جس چیز کے ساتھ دلیل پکڑی ہے وہ یہ ہے کہ خراج اس زمین میں واجب ہے جو زمین کاشتکاری کے لائق ہے، خواہ اس میں کاشتکاری کی جائے یا نہ کی جائے۔ رہا عشر تو وہ صرف پیداوار پر واجب ہے اور درجِ ذیل مرفوع حدیث: (( لَا یِجْتَمِعُ الْعُشْرُ وَالْخَرَاجُ )) [عشر و خراج جمع نہیں ہو سکتے] یہ روایت اہل الحدیث کے اتفاق سے جھوٹی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ھدایۃ کی احادیث کی تخریج میں فرمایا ہے: حدیث (( لَا یَجْتَمِعُ الْعُشْرُ وَ خَرَاجٌ فِیْ أَرْضٍ عَلیٰ مُسْلِمٍ )) [مسلمان پر کسی زمین میں عشر اور خراج اکٹھے نہیں ہو سکتے] اسے ابن عدی نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ان الفاظ میں بیان کیا ہے: (( لَا یِجْتَمِعُ عَلیٰ مُسْلِمٍ خَرَاجٌ وَّ عُشْرٌ )) [مسلمان کے ذمے خراج و عشر جمع نہیں ہو سکتے]اس کی سند میں یحییٰ بن عنبسہ راوی ہے، جو ضعیف ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا ہے؛ وہ کذاب راوی ہے۔ یہ کلام شعبی اور عکرمہ رحمہما اللہ سے بھی صحیح ثابت ہے، جس کو ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے اس شخص کو کہا جس نے کہا تھا کہ میرے ذ مے تو خراج ہے: خراج تو زمین پرہے اور عشر پیداوار پر۔ اس روایت کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے یحییٰ بن آدم کے واسطے سے اپنی کتاب ’’الخراج‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اس میں یہ زہری کے واسطے سے ہے: مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور اس کے بعد زمین پر معاملہ کرتے تھے۔ زمین کرائے پر لیتے تھے اور اس کی پیداوار سے زکات ادا کرتے تھے۔ پس ہم اس زمین کو اسی قبیل سے گمان کرتے ہیں ۔ اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی درجِ ذیل حدیث مروی ہے: (( فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ الْعُشْرُ )) (متفق علیہ) [بارش سے سیراب ہونے والی زمین پر عشر ہے] اور اس کے عموم سے استدلال کیا جاتا ہے۔ زیلعی رحمہ اللہ نے احادیثِ ہدایہ کی تخریج میں کہا ہے: ابن الجوزی رحمہ اللہ نے عشر اور خراج کے درمیان جمع میں عمومِ حدیث کے ساتھ شافعی رحمہ اللہ کے لیے استدلال کیا ہے، چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter