Maktaba Wahhabi

365 - 728
سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمین پر عشر مقرر کیا ہے جو زمین بارش اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا وہ نمی والی زمین ہو۔ رہی وہ زمین جس کو کھینچ کر پانی پلایا جائے اس میں بیسواں حصہ ہے۔ اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ بیان کرنے میں متفرد ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ وہ خراجی اور غیر خراجی زمین کے بارے میں عام ہے۔ شیخ تقی الدین نے امام میں امام شافعی رحمہ اللہ کے لیے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے بیہقی رحمہ اللہ نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کو سفیان بن سعیدنے بیان کیا ہے، انھوں نے عمرو بن میمون بن مہران سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا ہے: میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے اس مسلمان کے بارے میں سوال کیا جس کی ملکیت میں خراج کی زمین ہے، اس سے زکات کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: مجھ پر تو صرف خراج ہے، تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا: خراج تو زمین پر ہے، جب کہ عشر پیداوار پر۔ نیز امام بیہقی رحمہ اللہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابن المبارک نے یونس سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے زہری رحمہ اللہ سے اس زمین کی زکات کے بارے میں سوال کیا جس پر خراج ہے تو انھوں نے جواب دیا: مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور اس کے بعد زمین کے بارے میں معاملہ کرتے رہے، وہ زمین کرائے پر لیتے تھے اور اس کی پیداوار سے زکات ادا کرتے تھے، لہٰذا ہم اس زمین کو اس جنس سے گمان کرتے ہیں ، انتھیٰ جنابِ شیخ (زیلعی رحمہ اللہ ) نے فرمایا: پہلا فتوی عمر بن عبدالعزیز کا ہے اور دوسری روایت نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے احادیثِ ہدایہ کی تخریج میں کہا ہے: امام ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق رحمہما اللہ نے زبیر بن عدی کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک کسان نے اسلام قبول کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو اپنی زمین میں رہے گا تو ہم تیرے اوپر سے جزیہ ہٹا دیں گے اور وہ تیری زمین سے لیں گے، پھر اگر تم اپنی زمین سے نقل مکانی اختیار کر لو گے تو ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، نیز محمد بن عبید الثقفی کے واسطے سے عمر و علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: جب اس نے اسلام قبول کر لیا، درآنحالیکہ اس کے پاس زمین تھی تو ہم نے اس پر سے جزیہ ہٹا دیا اور ہم نے اس زمین کا خراج وصول کیا۔ مخفی نہ رہے کہ زکات فقرا کا حق ہے، جیسا کہ پہلے گزرا اور خراج زمین پر لازم ہے جو اہلِ فئی کا حق ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فقرا کا حق ساقط ہو جائے اور اہل فئی کا حق باقی رہے۔ کوئی صاحبِ انصاف اس کو قبول نہیں کرتا ہے، کیونکہ جب کفر کی ذلت کی و جہ سے اس پر واجب جزیہ اس سے ہٹا دیا گیا تو بلاشبہ اسے زکات کا مکلف ٹھہرایا جائے گا جو کہ فقرا کا حق ہے اور ان ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے جن کا اقرار کرنے اور ان کے ادا کرنے کے بغیر اسلام صحیح نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی وہ حدیث جو پہلے گزر چکی ہے: (( فِیمَا سَقَتِ السَّمَائُ الْعُشْرِ )) (متفق علیہ) وہ بھی ہمارے اس موقف کی تایید کرتی ہے، لہٰذا اسلام اور فقرا کا حق لازم کیے بغیر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ یہ بات تو صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے دلائلِ شرعیہ کا ملاحظہ نہ کیا ہو جو ہر صاحبِ انصاف پر مخفی نہیں ہے۔ واللّٰه أعلم
Flag Counter